يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اے ایمان والو! اپنی فکر کرو، جب تم راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ رہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں (١) اللہ ہی کے پاس تم سب کو جانا ہے پھر وہ تم سب کو بتلا دے گا جو کچھ تم سب کرتے تھے۔
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُم ....: یعنی توحید اور شریعت کے احکام کی اس قدر وضاحت اور بار بار ترغیب دلانے اور اللہ کے احکام کی نافرمانی اور اس کے عذاب سے ڈرانے کے باوجود اگر یہ لوگ اپنی جہالت پر اصرار کریں تو تم ان کی گمراہی اور جہالت کی پروا نہ کرو، خود سیدھے راستے پر رہو گے تو ان لوگوں کی جہالت کا تم پر کوئی وبال نہیں ہو گا۔ یعنی اپنی اصلاح کی سب سے پہلے فکر کرو، ایسا نہ ہو کہ دوسروں کی غلطیوں اور عیوب کی فکر میں لگ کر اپنی اصلاح کو بھول ہی جاؤ۔ اگر تم سیدھے راستے پر ہو گے تو گمراہ لوگ تمھارا کچھ نقصان نہیں کر سکیں گے۔ خود سیدھے راستے اور ہدایت پر رہنے میں یہ بھی شامل ہے کہ نیکی کا حکم دیتے رہو گے اور برائی سے منع کرتے رہو گے تو ان کی گمراہی قطعاً تمھیں نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔ بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ سمجھ لیا ہے کہ انسان بس اپنی نجات کی فکر کرے، دوسروں کی اصلاح ضروری نہیں۔ چنانچہ اس غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا : ’’ لوگو ! تم اس آیت کو پڑھتے ہو اور اس کا غلط مطلب لیتے ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے : ’’جب لوگ ظالم کو دیکھیں، پھر اس کا ہاتھ نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر عذاب لے آئے۔‘‘ اسی حدیث میں ہے : ’’کوئی قوم ایسی نہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں پر عمل کیا جاتا ہو، پھر وہ طاقت رکھتے ہوں کہ اسے بدل دیں، مگر وہ نہ بدلیں مگر قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے ان سب کو عذاب کی لپیٹ میں لے لے۔‘‘ [ أبو داؤد، الملاحم، باب الأمر والنہی : ۴۳۳۸ ] ’’اِذَا اهْتَدَيْتُمْ ‘‘ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ باوجود تمھارے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکے لوگ باز نہ آئیں تو امر بالمعروف کرنے والوں پر کچھ بوجھ نہیں ہو گا۔ (ابن کثیر)