لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوا وَّآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوا وَّآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوا وَّأَحْسَنُوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
ایسے لوگوں پر جو ایمان رکھتے ہوں اور نیک کام کرتے ہوں اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جس کو وہ کھاتے پیتے ہوں جب کہ وہ لوگ تقویٰ رکھتے ہوں اور ایمان رکھتے ہوں اور نیک کام کرتے ہوں پھر پرہیزگاری کرتے ہوں اور خوب نیک عمل کرتے ہوں، اللہ ایسے نیکوکاروں سے محبت رکھتا ہے (١)۔
1۔ لَيْسَ عَلَى الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ....: یعنی اس کی حرمت سے پہلے ایمان اور عمل صالح والے جو لوگ شراب پیتے رہے اور جوا کھیلتے رہے، ان پر اس سے کوئی مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ یہ آیت اس وقت اتری جب شراب کی حرمت نازل ہونے کے بعد بعض صحابہ یہ کہنے لگے کہ ہمارے ان بھائیوں کا کیا حال ہو گا جو شراب پیتے اور جوا کھیلتے تھے اور ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سے کیا بدلہ ملے گا جو جنگ احد میں شہید ہو گئے، حالانکہ شراب ان کے پیٹوں میں تھی۔ (کبیر، ابن کثیر) 2۔ اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْا.... : یہاں تقویٰ کا حکم تین دفعہ دینے سے مراد یا تو تاکید ہے یا پہلے ’’اتَّقَوْا ‘‘ سے مراد شرک سے بچے، دوسرے تقویٰ سے مراد شراب سے بچے اور تیسرے تقویٰ سے مراد سب بری باتوں سے بچے یا تقویٰ پر قائم رہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ پہلے ’’اتَّقَوْا ‘‘ سے مراد شرک سے بچے، دوسرے سے مراد گناہوں سے بچے اور تیسرے سے مراد صغیرہ گناہوں سے بچے۔ اسی طرح ’’اٰمَنُوْا ‘‘ میں پہلے ایمان سے مراد اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ہے اور دوسرے سے مراد ایمان پر ثابت رہنا ہے۔ تیسری مرتبہ ’’اٰمَنُوْا ‘‘ کے بجائے ’’اَحْسَنُوْا ‘‘ فرمایا یعنی لوگوں کے ساتھ احسان کریں اور عبادت میں احسان حاصل کریں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، پھر اگر تم اسے نہیں دیکھتے تو وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔