لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۖ وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۖ إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ
بیشک وہ لوگ کافر ہوگئے جن کا قول ہے کہ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے (١) حالانکہ خود مسیح نے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا رب ہے، (٢) یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی ہے، اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے اور گناہگاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ (٣)
1۔ لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ: اس آیت کی وضاحت کے لیے دیکھیے اسی سورت کی آیت (۱۷)۔ یہود کے بعد اب نصاریٰ کی گمراہیوں کا بیان اور انھیں سزا سے ڈرانے کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ (کبیر) ان لوگوں سے نصرانیوں کاوہ فرقہ مراد ہے جنھوں نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ مسیح ابن مریم ہی تو ہے۔ اﷲ اور مسیح علیہ السلام کو ایک کہنے والوں کو اﷲ تعالیٰ نے نہایت تاکیدی الفاظ ’’ لَقَدْ ‘‘ (بلاشبہ، یقینا) کے ساتھ کافر قرار دیا۔ مسلمان کہلانے والوں میں بھی کئی لوگ یہ کہنے والے ہیں کہ ’’احد‘‘ اور ’’احمد‘‘ میں کوئی فرق نہیں، دونوں ایک ہیں، اﷲ تعالیٰ بشری جامہ پہن کر آ گیا، پھر کئی اپنے بزرگوں کے متعلق عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ عبادت کرتے کرتے اﷲ میں فنا ہو کر ایک ہو گئے اور بعض ان کے متعلق کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ان میں اتر آیا۔ پہلا عقیدہ اتحاد اور دوسرا حلول کہلاتا ہے۔ اگر مسیح کو عین اﷲ تعالیٰ، یعنی مسیح علیہ السلام اور اﷲ تعالیٰ کو ایک کہنے والے کافر ہیں تو یہ نام نہاد مسلمان کیوں کافر نہیں؟ معلوم ہوا حلول اور اتحاد کا عقیدہ واضح کفر ہے، جسے بعض ملحد لوگوں نے تصوف کے پردے میں معرفت قرار دے رکھا ہے۔ 2۔ وَ قَالَ الْمَسِيْحُ يٰبَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ: حالانکہ مسیح علیہ السلام نے اپنے آپ کو ہمیشہ اﷲ کا بندہ کہا، جب پیدا ہوئے تو دنیا میں آنے کے بعد بچپن ہی میں ان کی زبان سے یہی نکلا : ﴿اِنِّيْ عَبْدُ اللّٰهِ﴾ [ مریم : ۳۰ ] ’’یقیناً میں اﷲ کا بندہ ہوں۔‘‘ اور لوگوں کو بھی اسی وقت فرمایا : ﴿وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّيْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ﴾ [ مریم : ۳۶ ] ’’یقیناً اﷲ ہی میرا رب اور تمھارا رب ہے، سو اسی کی عبادت کرو۔‘‘ جوانی میں بھی یہی فرمایا : ﴿اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّيْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ ﴾ [ الزخرف : ۶۴ ] ’’بے شک اﷲ ہی میرا رب اور تمھارا رب ہے، پس اس کی عبادت کرو۔‘‘ نیز مسیح علیہ السلام کا یہ قول آج بھی انجیل یوحنا، باب (۷) میں موجود ہے : ’’یہی ہمیشہ رہنے والی زندگی ہے کہ وہ تجھ حقیقی الٰہ کو اور اس یسوع مسیح کو پہچانیں جسے تونے رسول بنا کر بھیجا۔‘‘ (المنار) 3۔ اِنَّهٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ....: یعنی اتحاد، حلول یا شرک کی کسی قسم کا عقیدہ و عمل رکھنے والوں پر جنت حرام اور جہنم واجب ہے۔ ’’مِنْ اَنْصَارٍ ‘‘ میں ’’اَنْصَارٍ ‘‘ جمع اس لیے لائے ہیں کہ مشرک لوگوں نے کئی ہستیوں کے متعلق گمان کر رکھا ہے کہ وہ ہمیں جہنم سے بچا لیں گی۔