لَقَدْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَأَرْسَلْنَا إِلَيْهِمْ رُسُلًا ۖ كُلَّمَا جَاءَهُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُهُمْ فَرِيقًا كَذَّبُوا وَفَرِيقًا يَقْتُلُونَ
ہم نے بالیقین بنو اسرائیل سے عہد و پیمان لیا اور ان کی طرف رسولوں کو بھیجا، جب کبھی رسول ان کے پاس وہ احکام لے کر آئے جو ان کی اپنے منشاء کے خلاف تھے تو انہوں نے ان کی ایک جماعت کو جھٹلایا اور ایک جماعت کو قتل کردیا۔
لَقَدْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ ....:اس سے مقصود بنی اسرائیل کی سرکشی اور وعدہ پورا نہ کرنے کا بیان ہے، گویا اس کا تعلق ابتدائے سورت ’’ اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ ‘‘ سے ہے، یعنی ہم نے ان سے عہد لیا کہ توحید و شریعت پر قائم رہیں گے اور جو رسول ان کی طرف بھیجے جائیں گے ان کی بات سنیں گے اور مانیں گے۔ اس میثاق کا ذکر اس سورت کی آیت (۱۲) اور سورۂ بقرہ کی آیت (۸۳ تا ۸۵) میں ہے۔