يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھرجائے (١) تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ایسی قوم کو لائے گا جو اللہ کی محبوب ہوگی اور وہ بھی اللہ سے محبت رکھتی ہوگی (٢) وہ نرم دل ہونگے مسلمانوں پر سخت اور تیز ہونگے کفار پر، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ بھی نہ کریں گے (٣) یہ ہے اللہ تعالیٰ کا فضل جسے چاہے دے، اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا اور زبردست علم والا ہے۔
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ: اﷲ تعالیٰ جو ماضی، حال اور مستقبل سب کچھ جانتا ہے، اسے پہلے ہی سے معلوم تھا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بہت سے عرب قبائل اسلام سے مرتد ہو جائیں گے، اس لیے اس نے آئندہ سے متعلق یہ آیت پہلے ہی نازل فرما دی۔ چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو تین مقامات مکہ، مدینہ اور بحرین کے علاوہ تمام علاقوں سے عرب قبائل کے مرتد ہونے کی خبریں آنے لگیں۔ وہ کہنے لگے کہ ہم نماز تو پڑھیں گے لیکن زکوٰۃ ادا نہیں کریں گے۔ اس وقت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان مرتدین سے جہاد کیا۔ اس فتنۂ ارتداد کا خاتمہ جن لوگوں کے ہاتھوں ہونا تھا اﷲ تعالیٰ نے ان کی پانچ صفات بیان کی ہیں۔ معلوم ہوا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی انصار و مہاجرین اور یمن سے آنے والے مجاہدین میں یہ پانچوں خوبیاں موجود تھیں۔ کتنے بے نصیب ہیں وہ لوگ جو ایسے لوگوں سے بغض رکھتے ہیں جن کے متعلق اﷲ تعالیٰ کی گواہی ہے :(1) اﷲ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اﷲ سے محبت کرتے ہیں۔ (2) مومنوں پر بہت نرم ہیں۔ (3) کافروں پر بہت سخت ہیں۔ (4) اﷲ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ (5) اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے۔ ان خوش نصیب لوگوں کے سردار اور خلیفہ ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر عرب دین سے پھرے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یمن سے مسلمان بلائے، ان سے جہاد کروایا کہ تمام عرب مسلمان ہوئے، یہ ان کے حق میں بشارت ہے۔ (موضح) ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت اتری تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ اس ( ابو موسیٰ) کی قوم ہے۔‘‘ (ابن ابی حاتم، ابن جریر) ’’ھدایۃ المستنیر‘‘ کے مصنف نے اس کو حسن قرار دیا ہے۔ الغرض ابو بکر رضی اللہ عنہ ، ان کے ساتھی مہاجرین و انصار اور اہل یمن میں یہ خوبیاں موجود تھیں۔ صاحب الکشاف نے لکھا ہے کہ مرتد ہونے والوں کے بارہ (۱۲) فرقے تھے، ان میں سے تین فرقے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں مرتد ہو گئے تھے : (1) بنو مدلج جن کا رئیس اسود عنسی تھا، جس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اسے فیروز دیلمی نے قتل کیا۔ (کشاف کے محشی نے لکھا ہے کہ اسود عنسی بنو مدلج سے نہیں بلکہ بنو عنس سے تھا) (2) مسیلمہ کذاب کی قوم بنو حنیفہ، جس سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جنگ کی اور وہ حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں قتل ہوا۔ (3) بنو اسد جن کا رئیس طلیحہ بن خویلد تھا، ان کی سر کوبی کے لیے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا۔ یہ شخص آخر میں مسلمان ہو گیا تھا۔