مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَٰلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ
اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچائے اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کردیا (١) اور ان کے پاس ہمارے بہت سے رسول ظاہر دلیلیں لے کر آئے لیکن پھر اس کے بعد بھی ان میں اکثر لوگ زمین میں ظلم و زیادتی اور زبردستی کرنے والے ہی رہے (٢)۔
1۔ مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ: دیکھیے اس سے پہلے آیت (۲۷) کا حاشیہ (۳) حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ حکم صرف بنی اسرائیل کے لیے نہیں ہے بلکہ سب لوگوں کے لیے ہے، کیونکہ بنی اسرائیل کے خون دوسرے مسلمانوں کے خون سے زیادہ قیمتی نہ تھے۔ (ابن کثیر) 2۔ وَ مَنْ اَحْيَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ......: یعنی اگر ایک شخص کو مرنے سے بچا لے گا تو اس کا ثواب اتنا ہے گویا سب کو بچا لیا۔