وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا ۖ وَقَالَ اللَّهُ إِنِّي مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد و پیماں لیا (١) اور انہی میں سے بارہ سردار ہم نے مقرر فرمائے (٢) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یقیناً میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نماز قائم رکھو گے اور زکوٰۃ دیتے رہو گے اور میرے رسولوں کو مانتے رہو گے اور ان کی مدد کرتے رہو گے اور اللہ تعالیٰ کو بہتر قرض دیتے رہو گے تو یقیناً میں تمہاری برائیاں تم سے دور رکھوں گا اور تمہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے چشمے بہہ رہے ہیں، اب اس عہد و پیمان کے بعد بھی تم میں سے جو انکاری ہوجائے وہ یقیناً راہ راست سے بھٹک گیا۔
وَ لَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ …....: پیچھے آیت (۷) میں گزرا ہے کہ مسلمانو! اپنے آپ پر اﷲ کی نعمت اور اپنے اس عہد کو یاد کرو جب تم نے سمع و طاعت کا پختہ عہد کیا تھا، اب فرمایا کہ یہ عہد صرف تم ہی سے نہیں لیا گیا بلکہ تم سے پہلے بنی اسرائیل سے بھی اسی قسم کا عہد لیا گیا تھا، مگر انھوں نے عہد توڑ دیا اور ذلت و مسکنت کا شکار ہوئے، لہٰذا تم ان جیسے مت بنو۔ (کبیر) بنی اسرائیل کے کل بارہ قبیلے تھے، اﷲ تعالیٰ نے انھی میں سے ان پر بارہ سردار مقرر کر دیے، تاکہ وہ ان کے حالات پر نظر رکھیں اور انھیں اپنے عہد پر قائم رہنے کی تلقین کرتے رہیں۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ نقیب ( سردار) ان جبارین (زبردست لوگوں کی قوم) کی خبر لانے کے لیے مقرر کیے تھے جن کا ذکر آیت (۲۱ تا ۲۶) میں آ رہا ہے۔ (ابن کثیر) مگر ظاہر الفاظ سے پہلی بات صحیح معلوم ہوتی ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی لیلۃ العقبہ میں جب سمع و طاعت پر بیعت لی تھی تو ان پر بارہ نقیب ہی مقرر فرمائے تھے۔ (قرطبی)