وَإِذِ اسْتَسْقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ ۖ فَانفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ ۖ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِن رِّزْقِ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے کہا اپنی لاٹھی پتھر پر مارو، جس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور (١) ہر گروہ نے اپنا چشمہ پہچان لیا، (اور ہم نے کہہ دیا کہ) اللہ تعالیٰ کا رزق کھاؤ پیو اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔
”الْحَجَرَ“ کا ترجمہ ’’ اس پتھر پر‘‘ اس لیے کیا ہے کہ ’’الف لام عہد‘‘ کا ہے ’’الف لام‘‘ جنس کا مانیں تو کوئی بھی پتھر مراد ہو سکتا ہے۔ تفہیم القرآن میں ہے : ’’وہ چٹان اب تک جزیرہ نمائے سینا میں موجود ہے، سیاح اسے جا کر دیکھتے ہیں اور چشموں کے شگاف اس میں اب بھی پائے جاتے ہیں ۔ بارہ چشموں میں یہ مصلحت تھی کہ بنی اسرائیلی قبیلے بھی بارہ ہی تھے، اللہ تعالیٰ نے ہر قبیلے کے لیے ایک چشمہ نکال دیا، تاکہ ان کے درمیان پانی پر جھگڑا نہ ہو۔‘‘ مگر ہزاروں سال کے بعد یہ بات یقین کے ساتھ کس طرح کہی جا سکتی ہے کہ یہ وہی چٹان ہے اور بعد میں نہیں بنی، جب کہ اس کی کوئی سند بھی نہیں ۔