الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
کل پاکیزہ چیزیں آج تمہارے لئے حلال کی گئیں اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لئے حلال ہے (١) اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال، اور پاکدامن مسلمان عورتیں اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں (٢) جب کہ تم ان کے مہر ادا کرو، اس طرح کہ تم ان سے باقاعدہ نکاح کرو یہ نہیں کہ اعلانیہ زنا کرو یا پوشیدہ بدکاری کرو، منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وہ ہارنے والوں میں سے ہیں۔
1۔ وَ طَعَامُ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ....:اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کا طعام، جس میں ذبیحہ بھی شامل ہے، مسلمانوں کے لیے حلال ہے، بشرطیکہ انھوں نے غیر اﷲ کے نام پر ذبح نہ کیا ہو اور واقعی ذبح کیا ہو۔ کسی چھری یا مشین سے سر کاٹ کر الگ کر دینا یا سخت گرم پانی میں جانور کو ڈال کر یا بجلی کے کرنٹ سے مار دینا ذبح نہیں، کیونکہ ان طریقوں سے جسم سے بہتا ہوا خون ( دم مسفوح) پوری طرح باہر نہیں نکلتا جو حرام ہے، اس لیے ایسے جانور کا گوشت کھانا درست نہیں۔ اگر صحیح ذبح کیا ہو تو پھر ٹھیک ہے۔ اہل کتاب کا ذبیحہ کھانے سے متعلق حدیث ہے کہ خیبر کی فتح کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ( ایک یہودی عورت کی طرف سے) بکری کے گوشت کا ہدیہ پیش کیا گیا جس میں زہر ملا ہوا تھا اور آپ نے اس میں سے کچھ کھایا۔ [ بخاری، المغازی، باب الشاۃ التی سمت للنبی صلی اللہ علیہ وسلم بخیبر : ۴۲۴۹ ] اسی طرح بعض صحابہ نے بھی وہ چربی کھائی جو خیبر میں یہودیوں سے حاصل ہوئی تھی۔ [ مسلم، الجہاد، باب جواز الأکل من طعام الغنیمۃ ....: ۱۷۷۲ ] مگر جو چیزیں ہماری شریعت میں حرام ہیں، جیسے مردار، خون، خنزیر کا گوشت وغیرہ، یہ چیزیں ان کے دسترخوان پر کھانا بھی حرام ہے، بلکہ ایسے دسترخوان پر بیٹھنا بھی جائز نہیں، نہ ان کے ایسے برتن استعمال کرنا جائز ہے، ہاں اگر اور برتن نہ ملیں اور مجبوری ہو تو انھیں خوب دھو کر اور صاف کر کے استعمال کر سکتے ہیں۔ 2۔ وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ ....: یعنی ان سے نکاح کرنا درست ہے، چاہے وہ اپنے دین پر قائم رہیں، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ پاک دامن ہوں نہ کہ آزاد منش اور آوارہ قسم کی، جو انسان کے ایمان کو بھی تباہ کر ڈالیں۔ جمہور کے نزدیک یہاں ”الْمُحْصَنٰتُ“ کے یہی معنی مراد ہیں، تاکہ کفر اور زنا کی دو آفات ان میں جمع نہ ہوں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۲۱)۔ 3۔ وَ مَنْ يَّكْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ ....: اس میں تنبیہ کی گئی ہے کہ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح صرف جائز ہے، مستحسن نہیں اور جو شخص اس اجازت سے فائدہ اٹھائے اسے اپنے ایمان کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی غیر مسلم بیوی سے متاثر ہو کر اپنے ایمان و اخلاق سے ہاتھ دھو بیٹھے۔