سورة البقرة - آیت 59

فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پھر ان ظالموں نے اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی (١) بدل ڈالی، ہم نے بھی ان ظالموں پر ان کے فسق اور نافرمانی کی وجہ سے آسمانی عذاب (٢) نازل کیا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

مگر ان ظالموں نے اللہ کے اس حکم کا مذاق اڑایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بنی اسرائیل سے کہا گیا : ﴿ وَ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّةٌ ﴾ ’’اور دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جاؤ اور کہو بخش دے۔‘‘ تو انھوں نے اسے بدل دیا اور اپنے سرینوں پر گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور انھوں نے کہا : (( حَبَّةٌ فِيْ شَعْرَةٍ )) ’’دانہ بالی میں ۔‘‘ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، بابٌ : ۳۴۰۳۔ مسلم : ۳۰۱۵ ] بتائیے کہ اس سے بڑھ کر عناد اور حکم الٰہی کی مخالفت اور کیا ہو سکتی تھی۔ اس عظیم نا فرمانی کو قرآن نے ’’فسق‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے جس کے معنی حدود اللہ سے کلیتاً نکل جانے کے ہیں ، اس بنا پر انھیں ظالم قرار دیا اور ان کے اس ظلم کی سزا میں ان پر طاعون کا عذاب نازل فرمایا۔ ”رِجْزًا“ کے معنی گو مطلق عذاب کے ہیں ، مگر حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مراد طاعون ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلطَّاعُوْنَ رِجْسٌ اُرْسِلَ عَلٰی طَائِفَةٍ مِنْ بَنِيْ اِسْرَائِيْلَ أَوْ عَلٰی مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ )) [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب : ۳۴۳۷، عن اسامۃ بن زید رضی اللّٰہ عنہما ] ’’طاعون ایک عذاب ہے جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر یا ان لوگوں پر بھیجا گیا جو تم سے پہلے تھے۔‘‘ مسلم میں ”رِجْسٌ“ کی جگہ ”رِجْزٌ“ ہے۔ [ مسلم، السلام، باب الطاعون والطیرۃ .... : ۲۲۱۸ ] حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ قصہ سورۂ اعراف میں بھی مذکور ہے، مگر وہ سورت چونکہ مکی ہے، اس لیے ضمیر غائب سے اس کو ذکر کیا ہے اور یہ سورت مدنی ہے اور مدینہ میں یہود سامنے تھے، اس لیے ضمیر مخاطب لائی گئی ہے۔ الغرض ان دونوں قصوں ( بقرہ اور اعراف) کے درمیان سیاق کے اعتبار سے دس وجوہ سے فرق پایا گیا ہے، جن میں سے بعض کا تعلق الفاظ سے ہے اور بعض کا معنی سے۔ امام رازی اور امام زمخشری رحمہ اللہ نے وہ دس فرق خوب تفصیل سے بیان کیے ہیں ۔