إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ ۚ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا
یقیناً ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے کہ نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی، اور ہم نے وحی کی ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف (١) ہم نے (داؤد علیہ السلام) کو زبور عطا فرمائی۔
1۔ اِنَّاۤ اَوْحَيْنَاۤ اِلَيْكَ …....: یہ ان کے اس اعتراض اور مطالبے کا اصل جواب ہے کہ آپ تورات کی طرح آسمان سے اکٹھی کتاب نازل کروائیں، یعنی وحی اور دعوت الی الحق میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ دوسرے انبیاء سے مختلف نہیں ہے، نوح علیہ السلام سے لے کر جتنے انبیاء و رسل ہوئے ہیں سب کو الگ الگ معجزات ملے اور تورات کے علاوہ کسی کو بھی یک بارگی کتاب نہیں دی گئی، پھر جب یک بارگی کتاب ان پر نازل نہ کرنے سے ان کی نبوت پر حرف نہیں آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے لیے باعث اعتراض کیوں ہے؟ نوح علیہ السلام سے پہلے بھی بہت سے انبیاء ہوئے ہیں مگر اولو العزم اور صاحب شریعت نبی سب سے پہلے نوح علیہ السلام تھے اور نوح علیہ السلام ہی وہ نبی ہیں جن کی قوم پر عذاب نازل ہوا اور رد شرک کا وعظ بھی نوح علیہ السلام سے شروع ہوا، اس لیے سب سے پہلے ان کا نام ذکر کیا ہے۔ ( قرطبی، کبیر) وحی کے اصل معنی تو ’’ کسی مخفی ذریعے سے کوئی بات سمجھا دینا‘‘ کے ہیں اور ’’اِيْحَاءٌ ‘‘ (افعال) بمعنی الہام بھی آ جاتا ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ شوریٰ (۵۱)۔ 2۔ وَ اٰتَيْنَا دَاؤدَ زَبُوْرًا : یعنی تم زبور کو تو اﷲ تعالیٰ کی کتاب تسلیم کرتے ہو، حالانکہ وہ بھی داؤد علیہ السلام پر تورات کی طرح تختیوں کی شکل میں نازل نہیں ہوئی تھی، پھر قرآن مجید کے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہونے سے کیوں انکار کرتے ہو؟ (کبیر) موجودہ زبور میں ایک سو پچاس سورتیں ہیں، جن میں دعائیں نصیحتیں اور تمثیلیں مذکور ہیں، حلت و حرمت کے احکام مذکور نہیں ہیں۔