قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ
آپ کہہ دیجئے! کہ میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں (١)
1۔قُلْ اَعُوْذُ ....: ’’ اَعُوْذُ ‘‘ ’’عَاذَ يَعُوْذُ عَوْذًا وَمَعَاذًا‘‘ (ن) پناہ پکڑنا۔ پناہ لینے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کسی چیز سے خوف محسوس کرے اور سمجھے کہ میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تو اس سے بچنے کے لیے وہ کسی دوسرے کی حفاظت میں چلا جائے یا کسی چیز کی آڑ لے لے۔ ظاہر ہے پناہ اسی کی لی جاتی ہے جس کے متعلق سمجھا جائے کہ وہ اس خوف ناک چیز سے بچا سکتا ہے۔ پناہ بعض اوقات ایسی چیزوں کی لی جاتی ہے جنھیں اللہ تعالیٰ نے بعض خوف ناک چیزوں سے بچنے کا سبب بنا دیا ہے، مثلاً دشمن سے بچنے کے لیے کسی قلعہ یا خندق یا مورچے وغیرہ کی پناہ لینا اور کسی ظالم سے بچنے کے لیے کسی طاقتور آدمی یا قوم کی پناہ لینا، یہ پناہ کسی بھی چیز کی لی جا سکتی ہے اور بعض اوقات یہ سمجھ کر پناہ لی جاتی ہے کہ وہ خطرات جن میں دنیا کے بچاؤ کے تمام ذرائع و اسباب بے کار ہو جائیں ان میں فلاں ہستی بچا سکتی ہے۔ سورۂ فلق اور سورۂ ناس میں جس پناہ کا ذکر ہے، بلکہ قرآن و حدیث میں جہاں بھی اللہ سے پناہ مانگی گئی ہے اس سے مراد پناہ کی دوسری قسم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے سے یہ پناہ مانگنا شرک ہے۔ مشرک لوگ اپنے تحفظ کے لیے اللہ کو چھوڑ کر دیوی دیوتاؤں ، جنوں ، فرشتوں یا پیروں، پیغمبروں کی پناہ لیتے اور ان کو مدد کے لیے پکارتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سورتوں میں تعلیم دی کہ ایسے تمام خطرات سے بچنے کے لیے میری ان صفات کی پناہ لو جن سے ثابت ہو رہا ہے کہ ایسے تمام خطرات سے میں ہی تمھیں بچا سکتا ہوں۔ 2۔ بِرَبِّ الْفَلَقِ: ’’فَلَقَ يَفْلِقُ فَلَقًا‘‘(ض) پھاڑنا۔ یہاں مصدر ’’ الْفَلَقِ ‘‘ مفعول ’’مَفْلُوْقٌ‘‘ کے معنی میں ہے۔ اس کی تفسیر میں معتبر اقوال دو ہیں، پہلا قول جابربن عبداللہ رضی اللہ عنھما کا ہے جو ابن ابی حاتم نے حسن سند کے ساتھ بیان کیا ہے، ان کے علاوہ کئی تابعین کا بھی یہی قول ہے کہ ’’ الْفَلَقِ ‘‘ کا معنی صبح ہے، کیونکہ صبح رات کی تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ﴾ [ الأنعام : ۹۶] ’’یعنی وہ رات کی تاریکی کو پھاڑ کر صبح لانے والا ہے۔‘‘ صبح کے رب کی پناہ لینے کا مطلب یہ ہے کہ جو رب رات کی تاریکی کو دور کرکے روشن صبح لانے والا ہے میں ساری مخلوق کے شر سے اس کی پناہ مانگتا ہوں، کیونکہ جب وہ رات کی تاریکی کو دور کر دیتا ہے، جس میں بے شمار شر ور پائے جاتے ہیں تو اس کے لیے دوسرے شرور کو دور کرنا اور ان سے بچانا تو معمولی بات ہے۔ دوسرا قول ابن عباس رضی اللہ عنھما کا ہے جو طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ بیان کیا ہے اور ضحاک کا قول بھی یہی ہے کہ ’’ الْفَلَقِ ‘‘ سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو پھاڑ کر نکالا ہے، مثلاً زمین سے نباتات، پہاڑوں سے چشمے، بادلوں سے بارش اور رحم مادر اور انڈوں سے حیوانات۔ ان کے علاوہ جہاں بھی پیدائش کا معاملہ ہے اکثر میں انشقاق ( پھٹنے ) کا سلسلہ موجود ہے۔ گویا ’’ الْفَلَقِ ‘‘ کا معنی مخلوق ہے، مطلب یہ ہوگا کہ میں ساری مخلوق کے مالک کی پناہ پکڑتا ہوں کہ وہ مجھے اپنی مخلوق کے شر سے بچا لے۔ یہ معنی زیادہ جامع ہے، اس لیے ترجمہ میں اسی کو اختیار کیا گیا ہے۔