وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ
اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔ (١)
1۔وَ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ: ’’ كُفُوًا‘‘ہم مثل، جوڑ ، جو برابر کا ہو۔ ’’قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ‘‘ کہنے سے اولاد اور کفو کی خود بخود نفی ہو جاتی ہے مگر ان کو پھر الگ بھی ذکر فرمایا، جیساکہ سورۂ بقرہ کی آیت (۹۸) : ﴿ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَ مَلٰٓىِٕكَتِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ جِبْرِيْلَ وَ مِيْكٰىلَ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَ ﴾ (جو شخص اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں کا اور جبریل اور میکال کا دشمن ہو تو بلاشبہ اللہ سب کافروں کا دشمن ہے) میں ملائکہ میں شامل ہونے کے باوجود جبریل اور میکائیل کو الگ ذکر فرمایا ہے۔ اس کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ دوبارہ ذکر کرکے اس کی طرف خاص توجہ دلانا مقصود ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ اس سے مزید وضاحت اور تفصیل ہو جاتی ہے۔ ممکن ہے ایک شخص کو صرف ’’ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ‘‘ کہنے سے ان دونوں باتوں کی طرف توجہ ہی نہ ہوتی یا توجہ ہوتی بھی تو وہ اتنی وضاحت سے نہ سمجھ سکتا جتنی وضاحت سے وہ انھیں الگ ذکر کرنے سے سمجھا ہے۔ علم بلاغت میں اسے تجرید کہتے ہیں۔ (التسہیل) 2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورت کو قرآن کا ثلث قرار دیا ہے، یہ قرآن کا ثلث کس طرح ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کی وضاحت نہیں فرمائی، اہلِ علم نے اپنے اپنے خیال کے مطابق اس کی توجیہ فرمائی ہے بعض نے اس سے مراد ثواب لیا ہے، بعض نے فرمایا قرآن مجید کے تین ثلث ہیں، ایک ثلث احکام، دوسرا وعد و وعید اور تیسرا اسماء و صفات ہے اور اس سورت میں اسماء و صفات بیان ہوئے ہیں۔ بعض نے اللہ کی معرفت، آخرت کی معرفت اور صراطِ مستقیم کو قرآن کے تین ثلث قرار دے کر اللہ کی معرفت کو اس سورت کا موضوع قرار دیا ہے۔ بعض نے توحید، رسالت اور آخرت کو تین حصے قرار دیا اور اس سورت کو توحید کی جامع ہونے کی وجہ سے ثلثِ قرآن قرار دیا۔ یہ اختلاف خود اس بات کی دلیل ہے کہ ہر ایک نے اپنے ذہن سے ایک بات سوچی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی وضاحت نہیں آئی، ورنہ سب اس پر متفق ہو جاتے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ اس بات پر ایمان رکھا جائے کہ یہ سورت قرآن کے ثلث کے برابر ہے اور یہ بات اللہ کے سپرد کر دی جائے کہ ثلث کے برابر کس طرح ہے؟ 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی سنتوں میں ’’ قُلْ يٰاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ ‘‘ اور ’’ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ‘‘ پڑھا کرتے تھے۔ [ دیکھیے مسلم، صلاۃ المسافرین، باب استحباب رکعتي سنۃ الفجر....: ۷۲۶ ] سورت ﴿قُلْ يٰاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ ﴾ توحید عملی کی جامع ہے کہ میں اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرتا ہوں، نہ کروں گا اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ میں کسی اور کی عبادت کروں اور سورت ﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ﴾ توحید علمی کی جامع ہے کہ اللہ کے متعلق عقیدہ و علم کیا ہونا چاہیے۔ (زاد المعاد)