أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ
کیا تو نے دیکھا جو (روز) جزا کو جھٹلاتا ہے (١)۔
اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ....: ’’دَعَّ يَدُعُّ دَعًّا‘‘ (ن) دھکے دینا۔ ’’کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جو جزا کو جھٹلاتا ہے…‘‘ یہ اوّلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب ہے، اس کے بعد ہر شخص اس کا مخاطب ہے۔ ان آیات میں قیامت کے دن اعمال کی جزا کو جھٹلانے کی وجہ سے کسی شخص میں جو سنگ دلی اور شقاوت پیدا ہوتی ہے اس کا ذکر فرمایا ہے۔ اس کے سامنے چونکہ دنیا ہی سب کچھ ہوتی ہے، اس لیے اسے کسی یتیم سے ہمدردی اور مسکین کی غم خواری پر کسی فائدے کی توقع ہوتی ہے نہ ان کے حقوق غصب کرنے پر کسی باز پرس اور سزا کا خوف ہوتا ہے، لہٰذا وہ ان بے بس لوگوں کے معاملے میں نہایت بے رحم ہوتا ہے۔ یتیم اپنے باپ کی وراثت مانگے یا اپنا کوئی اور حق وہ اسے دھکے مار کر باہر نکال دیتا ہے۔ مسکین پر رحم کرتے ہوئے اسے خود کھانا کھلانا تو دور کی بات ہے وہ کسی دوسرے کو اس کے لیے کہنے پر بھی تیار نہیں ہوتا۔ یتیموں اور مسکینوں سے ہمدردی صرف وہ شخص کر سکتا ہے جو جزا وسزا پر ایمان رکھتا ہو۔