سورة البقرة - آیت 55

وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور (تم اسے بھی یاد کرو) تم نے (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تھا کہ جب تک ہم اپنے رب کو سامنے دیکھ نہ لیں گے ہرگز ایمان نہ لائیں گے (جس گستاخی پر سزا میں) تم پر تمہارے (١) دیکھتے ہوئے بجلی گری۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اکثر مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ بات کہنے والے وہ ستر آدمی تھے جن کا سورۂ اعراف (۱۵۵) میں ذکر ہے، جنھیں موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ وقت کے لیے چنا تھا، جب موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تو انھوں نے کہا کہ ہم تمھارے کہنے پر ہر گز یقین نہیں کریں گے کہ اللہ تعالیٰ تم سے ہم کلام ہوئے ہیں جب تک ہم خود اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھ لیں ، اس پر وہ رجفہ (زلزلہ) اور صاعقہ ( بجلی کی کڑک) سے بے ہوش ہو کر مر گئے، پھر موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے دوبارہ زندہ ہوئے۔