سورة القدر - آیت 1

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یقیناً ہم نے اس شب قدر میں نازل فرمایا (١)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّا اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ: ’’ہم نے اسے قدر کی رات میں نازل کیا‘‘ یعنی قرآن مجید کو۔ جب کوئی چیز اتنی مشہور ہو کہ خود بخود ذہن میں آجاتی ہو تو اس کی عظمت واضح کرنے کے لیے نام لینے کے بجائے اس کی ضمیر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ 2۔ ’’ الْقَدْرِ ‘‘ کا معنی تقدیر ہے، یعنی تقدیر کی رات۔ اس معنی کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے: ﴿ فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ ﴾ [الدخان : ۴ ] ’’اس رات میں ہر محکم کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔‘‘ یعنی سال بھر میں جو کام ہونا ہوتا ہے اس رات میں لوح محفوظ سے نقل کرکے ان فرشتوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے جو اسے سرانجام دیتے ہیں۔ ’’ الْقَدْرِ ‘‘ کا دوسرا معنی عظمت ہے، یعنی عظمت والی رات۔ اس کے بعد اس کی عظمت پر دلالت کرنے والی چیزیں بیان کی ہیں، یعنی اس کا ہزار مہینے سے بہتر ہونا، اس میں ملائکہ اور جبریل علیہ السلام کا اترنا اور اس کا سرا سر سلامتی والی ہونا۔ لیلۃ القدر کے مفہوم میں یہ معنی بھی شامل ہے۔ 3۔ لیلۃ القدر میں قرآن مجید اتارنے کا مطلب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے یہ بیان فرمایا ہے کہ لیلۃالقدر میں پورا قرآن ایک ہی دفعہ آسمان دنیا پر نازل کیا گیا، پھر وہاں سے تھوڑا تھوڑا کرکے کئی سالوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ تفسیر ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے سورۂ بنی اسرائیل کی آیت (۱۰۶) : ﴿ وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَى النَّاسِ عَلٰى مُكْثٍ﴾ کی تفسیر کی تحقیق میں ابن عباس رضی اللہ عنھما کے اس قول کے متعلق فرمایا ہے کہ اسے طبری، نسائی (سنن کبریٰ، تفسیر سورۃ فرقان)، حاکم (مستدرک : ۲ ؍ ۳۶۸) اور بیہقی (دلائل النبوۃ : ۷؍ ۱۳۱ ) نے روایت کیا ہے اور سب نے اسے’’دَاؤدُ بْنُ أَبِيْ هِنْدٍ عَنْ عِكْرَمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ‘‘ کی سند سے بیان کیا ہے۔ حاکم نے اسے صحیح کہا اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے اور حافظ ابن حجر نے بھی فتح الباری (۹؍۴) میں ان کی موافقت کی ہے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کے نزول کی ابتدا لیلۃ القدر میں ہوئی۔ یہ معنی شعبی رحمہ اللہ نے کیا ہے۔ ( طبری) اور زمین پر قرآن مجید کے لیلۃ القدر میں اترنے کا معنی اس کے سوا ہو بھی نہیں سکتا۔ 4۔ اس رات کے رمضان میں ہونے کی تصریح خود قرآن میں ہے، فرمایا : ﴿ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ﴾ [ البقرۃ : ۱۸۵ ] ’’رمضان کا مہینا وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔‘‘ اور صحیح احادیث میں ہے کہ وہ رمضان کے آخری عشرے کی کوئی ایک طاق رات (۲۱، ۲۳، ۲۵، ۲۷، ۲۹) ہے۔ متعین نہ کرنے میں یہ حکمت ہے کہ مسلمان ان راتوں میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرلیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پورے آخری عشرے ہی میں شب بیداری، اعتکاف اور گھروالوں کو جگانے کا اہتمام کرتے تھے۔ [ دیکھیے بخاري، فضل لیلۃ القدر ، باب العمل في العشرالأواخر من رمضان : ۲۰۲۴ ]