كَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَيَطْغَىٰ
سچ مچ انسان تو آپے سے باہر ہوجاتا ہے۔
1۔ كَلَّا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰى....: ’’كَلَّا‘‘ کا معنی ’’ہر گز نہیں‘‘، ’’خبردار‘‘ اور ’’حق یہ ہے‘‘ میں سے موقع کی مناسبت سے کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ ’’ الرُّجْعٰى ‘‘ ’’رَجَعَ يَرْجِعُ‘‘ (ض) سے ’’بُشْرٰي‘‘ کے وزن پر مصدر ہے۔ 2۔ یہ آیات پہلی پانچ آیات کے بعد وقفہ سے نازل ہوئیں، جب ابوجہل نے آپ کو نماز پڑھنے سے روکا۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے کہ ابوجہل آیا اور کہنے لگا : ’’کیا میں نے تمھیں اس سے منع نہیں کیا؟‘‘ یہ بات اس نے تین بار کہی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو اسے ڈانٹا، اس پر ابوجہل کہنے لگا : ’’تم جانتے ہو اس شہر میں مجلس کے ساتھی مجھ سے زیادہ کسی کے نہیں۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اتاریں : ﴿ فَلْيَدْعُ نَادِيَهٗ (17) سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ﴾ [العلق : 18،17 ] ’’پس وہ اپنی مجلس کو بلا لے۔ ہم عنقریب جہنم کے فرشتوں کو بلا لیں گے۔‘‘ [ ترمذي، تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ اقرأ باسم ربک : ۳۳۴۹ ] ترمذی اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ 3۔ سورت کی ابتدائی پانچ آیات کے ساتھ ان آیات کی مناسبت یہ ہے کہ انسان اتنی نعمتیں جو اوپر ذکر ہوئیں، ملنے کے باوجود احسان ماننے اور شکر کرنے کے بجائے سرکشی اختیار کرتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ اسے ضرورت کی ہر چیز دے کر دوسروں سے غنی کر دیتا ہے تو وہ بندگی کی حد سے نکل کر مقابلے پر آجاتا ہے۔ فرمایا، بندے! جتنی چاہے سرکشی کر لے، یقیناً تجھے اپنے رب کے پاس واپس آنا ہے۔