وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَىٰ بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم بچھڑے کو معبود بنا کر تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔ اب تم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو، اپنے آپ کو آپس میں قتل کرو، تمہاری بہتری اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسی میں ہے، تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی، وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے۔ (١)
بنی اسرائیل میں جس طرح شادی شدہ زانی کی سزا رجم تھی اسی طرح شرک کے ارتکاب پر بھی انھیں قتل کی سزا سنائی گئی اور اس پر عمل بھی ہوا۔ ہماری امت میں بھی ارتداد کی سزا قتل ہے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ بَدَّلَ دِيْنَهٗ فَاقْتُلُوْهُ )) ’’جو شخص مرتد ہو جائے اسے قتل کر دو۔‘‘ [ أبو داؤد، الحدود، باب الحکم فیمن ارتد : ۴۳۵۱، و صححہ الألبانی رحمہ اللّٰہ ]مگر اتنی تخفیف کر دی گئی کہ مرتد توبہ کر لے تو اسے معاف کر دیا جائے گا، البتہ رجم کی حد توبہ کے باوجود جاری کی جائے گی۔ طبری نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل فرمایا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنی قوم کو حکم دیا کہ اپنے آپ کو قتل کرو، تو وہ لوگ جو بچھڑے کے مجاور بنے تھے گوٹھ مار کر بیٹھ گئے اور جو لوگ مجاور نہیں بنے تھے وہ اٹھے اور انھوں نے ہاتھوں میں خنجر لیے، ان پر ایک سخت تاریکی چھا گئی اور وہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے، پھر اندھیرا دور ہو گیا، روشنی ہوئی تو ستر ہزار قتل ہو چکے تھے۔ جو قتل ہو گیا اس کی بھی توبہ قبول ہو گئی اور جو بچ گیا اس کی بھی۔ صاحب ’’ التفسیر الصحیح ‘‘ فرماتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما تک اس روایت کی سند صحیح ہے، مگر ظاہر ہے کہ یہ اہل کتاب سے لی گئی ہے، جس کے متعلق حکم ہے کہ انھیں نہ سچا کہو اور نہ جھوٹا کہو۔ اوپر آیت (۵۲) میں جس معافی کا ذکر ہے وہ اس قتل کے بعد کا ہے۔