َالضُّحَىٰ
قسم ہے چاشت کے وقت کی (١)
1۔ وَ الضُّحٰى (1) وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰى ....:’’ الضُّحٰى ‘‘ سورج طلوع ہونے کے بعد جب پوری طرح روشن ہو جاتا ہے۔ ’’ سَجٰى ‘‘ ’’سَجَا يَسْجُوْ سَجْوًا‘‘ (ن) پُر سکون ہونا۔ ’’ وَدَّعَكَ‘‘ ’’وَدَعَ يَدَعُ‘‘ (چھوڑنا) سے باب تفعیل ہے جو چھوڑنے میں مبالغے کا معنی رکھتا ہے۔ ’’ قَلٰى ‘‘ ’’ قَلٰي يَقْلِيْ قِلًي وَ قَلاَءً ‘‘ (ض،س) ’’ اَلرَّجُلَ أَبْغَضَهٗ ‘‘ کسی سے بغض رکھنا۔ 2۔ جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے تو دو یا تین راتیں (تہجد کے لیے) نہ اٹھے۔ ایک عورت آئی اور کہنے لگی : ’’اے محمد! مجھے امید ہے کہ تمھارا شیطان تمھیں چھوڑ گیا ہے، دو تین راتوں سے میں نے اسے تمھارے پاس آتے نہیں دیکھا۔‘‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔ [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ﴿ما ودعک ربک وما قلٰی﴾: ۴۹۵۰ ] جندب رضی اللہ عنہ ہی سے مروی دوسری روایت میں ہے کہ ایک دفعہ جبریل علیہ السلام نے آنے میں دیر کر دی، یہاں تک کہ مشرکین کہنے لگے کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اس کے رب نے چھوڑ دیا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔ [ طبری : ۲۴ ؍۴۸۷، ح : ۳۷۸۵۷ ] قسم اور جواب قسم میں مناسبت یہ ہے کہ دوپہر کو سورج خوب روشن ہوتا ہے، اس کے بعد سیاہ رات چھا جاتی ہے تو کوئی بھی نہیں سمجھتا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناراض ہونے کی وجہ سے ہے، تو وحی کی روشنی کے بعد کچھ دیر اگر وقفہ ہوگیا تو کیوں سمجھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں چھوڑ دیا ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے! بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح دن بھر آفتاب کی روشنی و گرمی کے بعد انسانی جسم کو آرام اور سکون کے لیے رات کی ضرورت ہے، اسی طرح وحی کے بارگراں کے بعد طبیعت کو سکون اور مزید وحی کے تحمل کے لیے وقفہ کی ضرورت ہے۔