عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ
(اور) محنت کرنے والے تھکے ہوئے ہونگے (١)
1۔ عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ ....: کافر دنیا میں جتنی محنت بھی کرے وہ قیامت کے دن گردو غبار کی طرح اڑا دی جائے گی۔ ( دیکھیے فرقان : ۲۳) یہی حال دکھاوا کرنے والے اور سنت کو چھوڑ کر خود ساختہ عمل کرنے والے کا ہے کہ سخت محنت کے باوجود جہنم میں جائے گا۔ (دیکھیے سورۂ کہف کا آخری رکوع مع تفسیر) اسی مفہوم کے پیشِ نظر ابنِ عباس رضی اللہ عنھما نے ’’عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ‘‘ سے مراد نصاریٰ لیے ہیں۔ [ دیکھیے بخاري، التفسیر، باب سورۃ : ﴿ہل أتاک حدیث الغاشیۃ﴾، بعد ح : ۴۹۴۱ ] نصرانی راہبوں کی شدید ریاضتیں مشہور ہیں، مگر وہ قیامت کے دن ان کے کسی کام نہیں آئیں گی۔ اسی طرح جو لوگ خود ساختہ ورد وظیفے یا عبادتیں کرتے ہیں یا اپنے بنائے ہوئے طریقوں پر عبادت کرتے ہیں، خواہ ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر کریں یا الٹے لٹک کر یا سانس بند کرکے کریں یا مشرکین کی طرح کسی مخلوق کا تصور باندھ کر کریں یا ضربیں لگا کر، اتنی سخت مشقتوں کے باوجود وہ قیامت کے دن ذلیل ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يَرِدُ عَلَيَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَهْطٌ مِّنْ أَصْحَابِيْ فَيُجْلَوْنَ عَنِ الْحَوْضِ فَأَقُوْلُ يَا رَبِّ! أَصْحَابِيْ، فَيَقُوْلُ إِنَّكَ لاَ عِلْمَ لَكَ بِمَا أَحْدَثُوْا بَعْدَكَ، إِنَّهُمُ ارْتَدُّوْا عَلٰي أَدْبَارِهِمُ الْقَهْقَرٰی فَأَقُوْلُ سُحْقًا سُحْقًا لِمَنْ غَيَّرَ بَعْدِيْ)) [ بخاري، الرقاق، باب في الحوض : ۶۵۸۵، ۶۵۸۴ ] ’’قیامت کے دن میرے ساتھیوں میں سے ایک جماعت مجھ پر پیش کی جائے گی ، پھر انھیں حوض سے روک دیا جائے گا تو میں کہوں گا : ’’اے میرے رب! یہ تو میرے ساتھی ہیں۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ’’آپ نہیں جانتے کہ انھوں نے آپ کے بعد کیا کیا نئی چیزیں شروع کر دی تھیں، بلاشبہ یہ لوگ ایڑیوں کے بل الٹے لوٹ گئے تھے۔ ‘‘ تو میں کہوں گا : ’’پھر جس نے میرے بعد تبدیلی کر دی اسے مجھ سے دور لے جاؤ، اسے مجھ سے دور لے جاؤ۔‘‘ 2۔ تَصْلٰى نَارًا حَامِيَةً: ’’ حَامِيَةً ‘‘ ’’حَمِيَ يَحْمٰي حَمْيًا‘‘(س) ’’اَلنَّارُ‘‘ (آگ کا سخت گرم ہونا) سے اسم فاعل مؤنث ہے، سخت گرم۔