وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا
جب تم سفر پر جا رہے ہو تو تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں، اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے (١) یقیناً کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں۔
1۔ وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ: قصر کا معنی کمی ہے، یہ کمی رکعات کی تعداد میں بھی مسنون ہے اور اگر خوف زیادہ ہو تو نماز کی ہیئت و شکل میں بھی کمی ہو سکتی ہے، مثلاً پیدل جاتے جاتے نماز پڑھ لینا۔ ظاہر ہے اس میں سجدہ اور رکوع تو پوری طرح ممکن نہیں، یا سواری پر اشارے سے نماز پڑھ لینا۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۳۹)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کو خالد بن سفیان کے قتل کے لیے بھیجا، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے لشکر تیار کر رہا تھا۔ عبد اللہ وہاں پہنچے تو عصر کا وقت قریب تھا، انھوں نے جاتے جاتے ہی نماز پڑھ لی۔ [ أبو داؤد، صلاۃ السفر، باب صلاۃ الطالب : ۱۲۴۹ ] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس کی سند کو حسن اور ابن کثیر نے جید کہا ہے۔ [ ہدایۃ المستنیر ] عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کی زبان سے حضر میں چار، سفر میں دو اور خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔‘‘ [ مسلم، صلاۃ المسافرین ، باب صلاۃ المسافرین و قصرھا : ۶۸۷ ] عام سفر میں مغرب اور صبح کی نماز کے علاوہ دوسری نمازوں میں چار کے بجائے دو رکعت پڑھنا قصر ہے۔ ’’ تم پر کچھ گناہ نہیں‘‘ کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ حالت سفر میں قصر واجب نہیں، اس کی صرف اجازت ہے اور یہی اکثر علمائے سلف کا مسلک ہے، مگر چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ سفر میں قصر پڑھی ہے، لہٰذا آپ کی سنت کو دیکھتے ہوئے امام شافعی، امام احمد ابن حنبل اور اکثر محدثین رحمۃ اللہ علیھم کے نزدیک قصر افضل ہے۔ 2۔ سفر سے مراد بظاہر تو عام سفر ہے، جسے عرف میں سفر کہا جاتا ہو، اب رہی میلوں یا دنوں کی مقدار کی تعیین تو نہ قرآن کی کسی آیت میں اس کا صاف ذکر ہے اور نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی صریح حدیث میں۔ اس بنا پر جن ائمہ اور علماء نے کسی مقدار کی تعیین کی ہے، انھوں نے عموماً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سفروں کو دیکھتے ہوئے اپنے اجتہاد سے کی ہے، تاہم سب سے قوی دلیل سفر کی مقدار کی تعیین میں صحیح مسلم(۶۹۱) میں مروی حدیث انس ہے، جس کی رو سے تین فرسخ ( ۹ کوس) تقریباً اکیس کلو میٹر سفر کرنا ہو تو شہر سے نکل کر قصر کر سکتے ہیں۔ 3۔ کسی صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں کہ آپ نے کسی سفر میں فرض نماز سے پہلے یا بعد میں سنتیں ادا کی ہوں، ہاں رات کے وتر اور صبح کی سنتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سفر میں پڑھا کرتے تھے اور کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ (زاد المعاد : ۱؍۴۵۶) صحابہ میں سے ابو بکر، عمر اور ابن عمر رضی اللہ عنھم کا اسی پر عمل تھا۔ [ بخاری، التقصیر، باب من لم یتطوع فی السفر دبر الصلاۃ : ۱۱۰۲ ] 4۔ مسافر اگر مقیم کے پیچھے نماز پڑھے گا تو قصر نہیں کرے گا۔ موسیٰ بن سلمہ فرماتے ہیں کہ ہم ابن عباس رضی اللہ عنھماکے ساتھ مکہ میں تھے تو میں نے کہا جب ہم آپ کے ساتھ ہوتے ہیں تو چار رکعت پڑھتے ہیں اور جب اپنی رہائش کی جگہوں میں جاتے ہیں تو دو رکعت پڑھتے ہیں تو انھوں نے فرمایا : ’’یہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔‘‘ [أحمد :1؍216، ح : ۱۸۶۷ ] اس کی ہم معنی روایت صحیح ابی عوانہ (۲؍۳۴۰) میں ہے۔ [ إرواء الغلیل، تحت الحدیث : ۵۷۱ ] 5۔ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ يَّفْتِنَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا: یہ آیت چونکہ جہاد کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے، اس لیے اس میں نماز قصر کی اجازت کے ساتھ’’اگر تمھیں ڈر ہو کہ کافر تمھیں فتنے میں ڈال دیں گے‘‘ کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ باقی رہا عام سفر، جس میں دشمن کا خوف نہ ہو تو اس میں قصر کے حکم کے بارے میں یہ آیت خاموش ہے، اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے واضح فرمایا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا : ’’ کیا وجہ ہے کہ لوگ ہر سفر میں قصر کر رہے ہیں، حالانکہ قرآن مجید میں یہ حکم خوف کے ساتھ مقید ہے؟‘‘ تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’خود مجھے بھی اس سے تعجب ہوا تھا اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ ایک صدقہ ہے، جو اللہ نے تم پر کیا ہے، لہٰذا تم اس کا صدقہ قبول کرو۔‘‘ [ مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ المسافرین و قصرھا : ۶۸۶ ] ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے مکہ تشریف لے گئے اور اس وقت رب العالمین کے سوا کسی کا خوف نہ تھا مگر آپ نے دو ہی رکعت نماز پڑھی۔‘‘ [ نسائی، تقصیر الصلاۃ فی السفر، بابٌ : ۱۴۳۶ ] انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے مکہ روانہ ہوئے تو آپ نماز کی دو دو رکعتیں ادا فرماتے رہے، حتیٰ کہ ہم مدینہ واپس آ گئے۔‘‘ حدیث کے راوی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا : ’’آپ لوگوں نے مکہ میں کتنی دیر قیام کیا تھا؟‘‘ تو انھوں نے جواب دیا : ’’ہم نے دس دن قیام کیا تھا۔‘‘ [ بخاری، التقصیر، باب ما جاء فی التقصیر....: ۱۰۸۱ ] ایک مرتبہ آپ نے مکہ میں انیس(۱۹) دن بھی قیام کیا تھا۔ [بخاری، المغازی، باب مقام النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بمکۃ زمن الفتح : ۴۲۹۸ ] جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں بیس دن ٹھہرے رہے اور نماز قصر کرتے رہے۔ [ أحمد:۳؍۲۹۵، ح : ۱۴۱۳۹، و صححہ الألبانی فی الإرواء] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مدت صراحت کے ساتھ نہیں آئی کہ کتنے دن کسی جگہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو قصر کر سکتا ہے۔ علماء کے اجتہادات مختلف ہیں، بعض نے فرمایا انیس دن ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو نماز پوری پڑھے، اس سے کم ہو تو قصر کرے۔ بعض نے یہ مدت پندرہ دن بیان فرمائی، بعض نے چار دن، مگر راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ جب تک کسی جگہ اقامت کا ارادہ نہ کرے قصر کر سکتا ہے۔ ثمامہ بن شراحیل فرماتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس گیا تو ہم نے عرض کیا : ’’مسافر کی نماز کیسے ہے؟‘‘ انھوں نے فرمایا : ’’دو دو رکعتیں سوائے مغرب کے کہ وہ تین رکعتیں ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’یہ بتائیں اگر ہم ذوالمجاز میں ہوں؟‘‘ انھوں نے فرمایا : ’’ذوالمجاز کیا ہے؟‘‘ میں نے کہا : ’’ایک جگہ ہے جس میں ہم جمع ہوتے ہیں اور خرید و فروخت کرتے ہیں اور بیس راتیں یا پندرہ راتیں ٹھہرتے ہیں۔‘‘ تو انھوں نے فرمایا : ’’اے آدمی! میں آذربائیجان میں رہا، میں نہیں جانتا کہ انھوں نے چار مہینے کہا یا دو ماہ، تو میں نے انھیں دیکھا کہ وہ دو دو رکعت پڑھتے تھے اور میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دو دو رکعت پڑھتے دیکھا۔‘‘ پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی : ﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ﴾ [ الأحزاب : ۲۱ ] [ أحمد :2؍83، ح : ۵۵۵۲، و حسنہ شعیب الأرنؤوط ]