وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً ۚ وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ إِلَّا أَن يَصَّدَّقُوا ۚ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
کسی مومن کو دوسرے مومن کا قتل کردینا زیبا نہیں (١) مگر غلطی سے ہوجائے (٢) (تو اور بات ہے) جو شخص کسی مسلمان کو بلا قصد مار ڈالے، اس پر ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرانا اور مقتول کے عزیزوں کو خون بہا پہنچانا ہے (٣) ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ لوگ بطور صدقہ معاف کردیں (٤) اور اگر مقتول تمہاری دشمن قوم کا ہو اور ہو وہ مسلمان، تو صرف ایک مومن غلام کی گردن آزاد کرانی لازمی ہے (٥) اور اگر مقتول اس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہد و پیمان ہے تو خون بہا لازم ہے، جو اس کے کنبے والوں کو پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام آزاد کرنا بھی ضروری ہے (٦) پس جو نہ پائے اس کے ذمے لگاتار دو مہینے کے روزے ہیں (٧) اللہ تعالیٰ سے بخشوانے کے لئے اور اللہ تعالیٰ بخوبی جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
1۔ وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ يَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَـًٔا: کفار کے ساتھ جنگ کی اجازت نازل ہوئی تو یہ عین ممکن تھا کہ کسی شخص کو کافر حربی ( جس سے جنگ ہو) سمجھ کر مسلمان قتل کر دیں اور بعد میں معلوم ہو کہ وہ مسلمان تھا، اس لیے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان کے قتل خطا کے احکام بیان فرما دیے۔ (رازی) آیت میں ”اِلَّا“ بمعنی ”لٰكِنْ“ ہے اور مستثنیٰ منقطع ہے، یعنی کسی بھی حال میں مسلمان کو قتل کرنا جائز نہیں ہے، لیکن اگر غلطی سے مارا جائے تو اس پر کفارہ ہے، جس کا بعد میں ذکر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کسی آدمی کا خون، جو یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، تین صورتوں میں سے کسی ایک کے سوا حلال نہیں : (1) جان کے بدلے جان۔ (2) شادی شدہ بدکار۔ (3) اسلام کو چھوڑنے والا (مرتد) جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے والا۔‘‘ [ بخاری، الدیات، باب قول اللّٰہ تعالٰی :﴿أن النفس بالنفس والعین بالعین﴾ : ۶۸۷۸، عن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ ] 2۔ وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَـًٔا فَتَحْرِيْرُ: یعنی جب کوئی مسلمان غلطی سے کسی مسلمان کو قتل کر دے تو اس کے دو حکم ہیں، ایک کفارہ دوسرا دیت یعنی خون بہا۔ کفارہ تو یہ ہے کہ وہ ایک مسلمان غلام ( مرد یا عورت) کو آزاد کرے اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے اوراس کے وارثوں کو دیت ادا کرے، کفارہ تو کسی حال میں ساقط نہیں ہوتا، ہاں، دیت اگر وارث معاف کر دیں تو ساقط ہو سکتی ہے، مگر یہ اس وقت ہے کہ جب مقتول کے وارث بھی مسلمان ہوں یا کافر ہوں لیکن ان سے معاہدہ ہو یا ذمی ہوں، جیسے آگے آ رہا ہے۔ 3۔ فَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ: لیکن اگر اس کے وارث حربی کافر ہوں تو پھر قاتل کے ذمے صرف کفارہ ہے، یعنی ایک مسلمان گردن آزاد کرنا، اگر نہ ہو سکے تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا۔ مقتول کے وارثوں کو خون بہا ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ وہ دشمن ہیں۔ (قرطبی) 4۔ وَ اِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍۭ بَيْنَكُمْ وَ بَيْنَهُمْ مِّيْثَاقٌ:اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ مقتول مسلمان ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہے جن سے تمھارا معاہدہ ہے، یا ذمی ہیں تو اس صورت میں بھی دو چیزیں واجب ہوں گی، دیت ( خون بہا) اور کفارہ۔ یہاں دیت کو کفارہ سے پہلے ذکر فرمایا ہے کہ اسے غیر مسلم قوم کا فرد سمجھ کر دیت کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کی جائے۔ بعض نے لکھا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ مقتول معاہد یا ذمی ہو (مسلمان نہ ہو) تو اس صورت میں بھی کفارہ اور وارثوں کو خون بہا ادا کرنا پڑے گا، مگر زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہاں بھی مسلمان مقتول ہی کی بات ہو رہی ہے۔ دیت ایک سو اونٹ یا اس کے اندازے کے ساتھ قیمت ہو گی، جو خطا کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف ہو گی۔ 5۔ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ: اگر کوئی کسی شرعی عذر یعنی مرض، حیض، نفاس وغیرہ کے بغیر ایک روزہ بھی چھوڑے گا تو نئے سرے سے دوبارہ دو ماہ کے روزے رکھنے پڑیں گے۔ (قرطبی)