وَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُوا فَتَكُونُونَ سَوَاءً ۖ فَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِيَاءَ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ۖ وَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا
ان کی تو چاہت ہے کہ جس طرح کے کافر وہ ہیں تم بھی ان کی طرح کفر کرنے لگو اور پھر سب یکساں ہوجاؤ، پس جب تک یہ اسلام کی خاطر وطن نہ چھوڑیں ان میں سے کسی کو حقیقی دوست نہ بناؤ (١) پھر اگر یہ منہ پھیر لیں تو انہیں پکڑو (٢) اور قتل کرو جہاں بھی ہاتھ لگ جائیں (٣) خبردار ان میں سے کسی کو اپنا رفیق اور مددگار نہ سمجھ بیٹھنا۔
وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ كَمَا كَفَرُوْا فَتَكُوْنُوْنَ سَوَآءً: معلوم ہوتا ہے کہ یہ منافقوں کی وہ قسم تھی جو مدینہ کے ارد گرد پھیلے ہوئے قبائل سے تعلق رکھتی تھی، دلیل اس کی یہ الفاظ ہیں : ﴿ فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْهُمْ اَوْلِيَآءَ حَتّٰى يُهَاجِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ﴾ ’’تو ان میں سے کسی طرح کے دوست نہ بناؤ، یہاں تک کہ وہ اللہ کے راستے میں ہجرت کریں۔‘‘ یہ لوگ مسلمانوں سے خیر خواہی اور محبت کا اظہار ضرور کرتے تھے مگر عملی طور پر اپنے ہم وطن کافروں کا ساتھ دیتے تھے، یا ساتھ دینے پر مجبور تھے۔ ان کے لیے معیار یہ مقرر کیا گیا کہ اگر وہ ہجرت کر کے تمہارے پاس مدینہ آ جائیں اور تمھیں ان کے ایمان کا یقین ہو جائے تو اس صورت میں تم انھیں سچا بھی سمجھو اور ہمدرد بھی اور اگر وہ ہجرت کرنے سے انکار کریں تو اگرچہ وہ اسلام کا اظہار کریں ان سے کافروں جیسا سلوک کرو، کیونکہ دارالکفرمیں چلے جانے کے بعد ان کا کفر کھل کر سامنے آ گیا، اس لیے انھیں گرفتار کرو اور حل و حرم میں جہاں پاؤ انھیں قتل کرو اور انھیں اپنا دوست نہ بناؤ۔