عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ
وہ ترش رو ہوا اور منہ موڑ لیا۔
1۔ عَبَسَ وَ تَوَلّٰى : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غائب کے صیغے سے ذکر فرمایا، اگرچہ بعد میں ” وَ مَا يُدْرِيْكَ ‘‘ سے مخاطب فرما لیا۔ اس میں نکتہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نابینا صحابی سے بے توجہی کی تو اللہ تعالیٰ نے بطور عتاب آپ کے خطاب سے بے توجہی فرمائی۔ موضح القرآن میں ہے : ’’یہ کلام گویا اوروں کے پاس گلہ ہے رسول کا۔ آگے رسول کو خطاب فرمایا۔‘‘ بعض اہلِ علم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اکرام کی وجہ سے آپ کو مخاطب کرکے اظہار ناراضی نہیں فرمایا۔ 2۔ بعض حضرات نے ’’تیوری چڑھانے والا‘‘ اس مشرک کو قرار دیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا، مگر اس کے بعد آنے والی آیات میں صاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا : ﴿ فَاَنْتَ عَنْهُ تَلَهّٰى﴾ یعنی آپ اس آنے والے (نابینے صحابی ) سے بے توجہی کرتے ہیں۔ اس لیے مذکورہ تفسیر درست نہیں۔