فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا تُكَلَّفُ إِلَّا نَفْسَكَ ۚ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ عَسَى اللَّهُ أَن يَكُفَّ بَأْسَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنكِيلًا
تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتا رہ، تجھے صرف تیری ذات کی نسبت حکم دیا جاتا ہے، ہاں ایمان والوں کو رغبت دلاتا رہ، بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کی جنگ کو روک دے اور اللہ تعالیٰ سخت قوت والا ہے اور سزا دینے میں بھی سخت ہے۔
1۔ فَقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ: اوپر کی آیات میں جہاد کی ترغیب دی، اس کے بعد منافقین کی سر گرمیوں کا ذکر کیا اور اب اس آیت میں فرمایا کہ آپ ان منافقین کے ساتھ ہونے یا نہ ہونے کی پروا نہ کریں، آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ خود جہاد کے لیے نکلیں اور دوسرے مومنوں کو بھی ترغیب دیں۔ ابو اسحاق بیان کرتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے پوچھا : ’’جو شخص مشرکوں پر حملہ کرتا ہے تو کیا وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتا ہے ؟‘‘ انھوں نے جواب دیا : ’’نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مبعوث کیا اور ان سے فرمایا : ﴿ فَقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ ﴾ اور جس آیت کا آپ حوالہ دے رہے ہیں : ﴿ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﴾ [ البقرۃ : ۱۹۵ ] اس کا تعلق تو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے ( اور نہ کرنے) سے ہے۔‘‘ [ مسند أحمد :4؍281، ح : ۱۸۵۰۶ ] اس سے معلوم ہوا کہ جہاد کے لیے کئی شرطیں لوگ اپنے پاس ہی سے بنا لیتے ہیں۔ 2۔ عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّكُفَّ بَاْسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا: اللہ تعالیٰ کے لیے ”عَسَى“ کا لفظ یقین کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، پس آیت میں وعدہ کیا جا رہا ہے کہ عنقریب کفار کا زور ٹوٹ جائے گا اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب ہو گا۔