سورة النسآء - آیت 81

وَيَقُولُونَ طَاعَةٌ فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِندِكَ بَيَّتَ طَائِفَةٌ مِّنْهُمْ غَيْرَ الَّذِي تَقُولُ ۖ وَاللَّهُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُونَ ۖ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِيلًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یہ کہتے ہیں کہ اطاعت ہے، پھر جب آپ کے پاس سے اٹھ کر باہر نکلتے ہیں تو ان میں سے ایک جماعت، جو بات آپ نے یا اس نے کہی ہے اس کے خلاف راتوں کو مشورہ کرتی ہے (١) ان کی راتوں کی بات چیت اللہ لکھ رہا ہے، تو آپ ان سے منہ پھیر لیں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں اللہ تعالیٰ کافی کارساز ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ يَقُوْلُوْنَ طَاعَةٌ:یہاں منافقین کی ایک اور مذموم خصلت بیان فرمائی ہے اور ان کو سرزنش کی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی حرکات سیئہ سے چشم پوشی اور اللہ تعالیٰ پر توکل کا حکم فرمایا ہے۔ ”بَيَّتَ“ کا لفظ اصل میں ’’بَيْتٌ ‘‘ (گھر) سے ہے اور انسان چونکہ عموماً رات کو گھر میں رہتا ہے، اس لیے ”بَاتَ“ کے معنی رات گزارنے کے ہیں، پھر چونکہ رات کے فارغ اوقات میں آدمی اپنے معاملات پر غور و فکر کرتا ہے، اس لیے ”بَيَّتَ“ کا لفظ کسی معاملہ میں نہایت غور و فکر کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے۔ (رازی) یعنی دن کو وہ آپ کے سامنے اطاعت کا یقین دلاتے ہیں مگر رات کو ان کے بعض گروہ اس کے برعکس مشورے کرتے ہیں جو وہ دن کو آپ کے سامنے کہہ رہے تھے۔ اس ’’طائفة‘‘ سے مراد لیڈر ہیں، کیونکہ عام لوگ تو ان کے پیچھے چلنے والے ہیں۔