مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ ۚ وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا
تجھے جو بھلائی ملتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے (١) اور جو برائی پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے (٢) ہم نے تجھے تمام لوگوں کو پیغام پہنچانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ گواہ کافی ہے۔
1۔ مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ:اس میں برائی اور بھلائی کا ایک قانون بیان فرما دیا ہے کہ بھلائی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جو برائی پہنچتی ہے اس کا بھیجنے والا بھی گو اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے مگر اس کا سبب تمہارے گناہ ہوتے ہیں۔ (دیکھیے سورۂ شوریٰ : ۳۰) اس لیے سلف صالحین کا عام قاعدہ تھا کہ جب کوئی اجتہادی رائے پیش کرتے تو کہتے، اگر یہ صحیح ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اسی کی توفیق سے ہے اور اگر غلط ہے تو ہماری طرف سے اور شیطان کی طرف سے ہے۔ ( ابن کثیر) اوپر کی آیت میں پیدا کرنے اور وجود میں لانے کے اعتبار سے ”حَسَنَةٍ“اور ”سَيِّئَةٍ“دونوں کو ”مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ“ ( اللہ کی طرف سے) قرار دیا ہے کہ دونوں چیزیں اسی نے پیدا کی ہیں، لیکن یہاں سبب اور کسب کی مناسبت سے برائی کی نسبت انسان کی طرف کر دی ہے، لہٰذا کوئی تعارض نہیں ہے۔ (رازی) موضح میں ہے : ’’بندہ کو چاہیے کہ نیکی اللہ کا فضل سمجھے اور تکلیف اپنی تقصیر سے۔ تقصیروں سے اللہ واقف ہے اور وہی جزا دیتا ہے۔‘‘ 2۔ وَ اَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا:یعنی آپ کا اصل منصب رسالت اور تبلیغ ہے اور اللہ گواہ ہے کہ آپ نے اس امانت کے ادا کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی اور وہ کافی گواہ ہے، پھر اس کے بعد بھی اگر کسی کو ہدایت نہیں ہوتی تو آپ کا اس میں کوئی قصور نہیں۔ (رازی) نیز یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی رسالت کا بیان بھی ہے کہ آپ تمام لوگوں کی طرف بھیجے گئے ہیں۔دیکھیے سورۂ اعراف (۱۰۸) اور سورۂ سبا (۲۸)۔