عَالِيَهُمْ ثِيَابُ سُندُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌ ۖ وَحُلُّوا أَسَاوِرَ مِن فِضَّةٍ وَسَقَاهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا
ان کے جسموں پر سبز باریک اور موٹے ریشمی کپڑے ہوں گے اور انہیں چاندی کے کنگن کا زیور پہنایا جائے گا (١) اور انہیں ان کا رب پاک صاف شراب پلائے گا
1۔ عٰلِيَهُمْ ثِيَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَّ اِسْتَبْرَقٌ ....: ’’ سُنْدُسٍ ‘‘ باریک ریشم۔ ’’ اِسْتَبْرَقٌ ‘‘ گاڑھا ریشم۔ ’’ حُلُّوْا ‘‘ ’’حِلْيَةٌ‘‘ سے ’’فُعِّلُوْا‘‘ کے وزن پر ہے، اصل میں ’’حُلِّيُوْا‘‘ تھا، زیور پہنائے جائیں گے۔ ’’ اَسَاوِرَ‘‘ ’’سِوَارٌ‘‘ کی جمع ہے، کنگن۔ ’’ شَرَابًا ‘‘ مشروب، پینے کی چیز، ’’ طَهُوْرًا ‘‘ جو پاک ہو اور پاک کرنے والی ہو، جیساکہ فرمایا : ﴿ وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَهُوْرًا ﴾ [ الفرقان : ۴۸ ] ’’اور ہم نے آسمان سے پاک کرنے والا پانی اتارا۔‘‘ 2۔ ’’ عٰلِيَهُمْ ‘‘ (ان کے اوپر) کے دومطلب ہو سکتے ہیں، ایک تویہ کہ وہ جن نشستوں پر بیٹھے ہوں گے ان کے اوپر باریک سبز ریشم اور گاڑھے ریشم کے پردے لٹک رہے ہوں گے۔ جب پردے اتنے قیمتی ہوں گے تو ان کے لباس کا کیا کہنا۔ دوسرا یہ کہ انھوں نے باریک سبز ریشم اور گاڑھے ریشم کا لباس پہن رکھا ہو گا، جیسا کہ سورۂ کہف میں فرمایا : ﴿ وَ یَلْبَسُونَ ثِيَابًا خُضْرًا مِّنْ سُنْدُسٍ وَّ اِسْتَبْرَقٍ﴾ [الکہف: ۳۱] ’’ اور وہ باریک اور گاڑھے سبز ریشم کے کپڑے پہنیں گے۔‘‘ یہ معنی زیادہ درست ہے، کیونکہ سورۂ کہف کی آیت سے اس کی تائید ہو رہی ہے۔ انس بن مالک، مجاہد اور قتادہ کی قراءت میں ’’عَلَيْهِمْ‘‘ ہے۔ [ دیکھیے زاد المسیر لابن الجوزي ] اس قراءت سے بھی دوسرے معنی کی تائید ہوتی ہے، اگرچہ پہلا معنی بھی غلط نہیں۔ 3۔ سورۂ کہف میں فرمایا : ﴿ يُحَلَّوْنَ فِيْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ ﴾ [ الکھف : ۳۱ ] ’’ان میں انھیں کچھ کنگن سونے کے پہنائے جائیں گے۔‘‘ جبکہ یہاں چاندی کے کنگن پہنائے جانے کا ذکر ہے، دونوں میں تطبیق کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہاں کئی جنتیں ہیں، جیسا کہ سورۂ رحمان میں الگ الگ دو دو جنتوں کا ذکر ہے اور جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( جَنَّتَانِ مِنْ فِضَّةٍ آنِيَتُهُمَا وَ مَا فِيْهِمَا، وَ جَنَّتَانِ مِنْ ذَهَبٍ آنِيَتُهُمَا وَ مَا فِيْهِمَا )) [ بخاري، التوحید، باب قول اللّٰہ تعالٰی: ﴿وجوہ یومئذ ناظرۃ....﴾: ۷۴۴۴ ] ’’ دو باغ ایسے ہیں کہ ان کے برتن اور ان میں جو کچھ ہے چاندی کا ہے اور دو باغ ایسے ہیں کہ ان کے برتن اور ان میں جو کچھ ہے سونے کا ہے۔‘‘ اب جنتی کی مرضی ہے کہ سونے کے کنگن پہنے یا چاندی کے یا دونوں پہن لے اور بعض اہلِ علم نے فرمایا کہ شاید اہلِ جنت کے درجات کے لحاظ سے سونے کے کنگن مقربین کے لیے اور چاندی کے اصحاب الیمین کے لیے ہوں گے۔ (التسہیل) مگر یہ بات جزم سے نہیں کہی جا سکتی، اس لیے پہلی بات ہی زیادہ درست ہے۔ 4۔ یہاں ایک سوال یہ ہے کہ کنگن وغیرہ عام طور پر عورتیں پہنتی ہیں، جنت میں مردوں کو کنگن پہنانے کا کیا مقصد ہے؟ جواب یہ ہے کہ ریشمی لباس اور سونے چاندی کے کنگنوں سے مراد اہلِ جنت کی شاہانہ شان و شوکت بیان کرنا ہے۔ دنیا میں قدیم زمانے سے بادشاہ سونے چاندی کے کنگن پہنتے رہے ہیں، جیساکہ فرعون نے موسیٰ علیہ السلام پر طعن کیا تھا : ﴿ فَلَوْ لَا اُلْقِيَ عَلَيْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ﴾ [ الزخرف : ۵۳ ] ’’اسے سونے کے کنگن کیوں نہیں پہنا ئے گئے؟‘‘ 5۔ وَ سَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا: آیت کے اس ٹکڑے میں جنتیوں کے لیے کئی بشارتیں ہیں، ایک یہ کہ انھیں ان کا رب خود شرابِ طہور پلائے گا۔ اس سے بڑی عزت افزائی اور کیا ہو سکتی ہے۔ دوسری یہ کہ وہ مشروب دنیا کے تمام سرور آور مشروبات کی ظاہری و باطنی نجاستوں سے اور ہر قسم کی خرابیوں سے پاک ہو گا، نہ اس میں نشہ ہو گا نہ درد سر، نہ متلی نہ قے، نہ اعضا شکنی، نہ زوال عقل، وہ سراسر لذت و سرور ہو گا۔ تیسری یہ کہ ’’ طَهُوْرًا ‘‘ کے لفظ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اس کے پینے سے اہلِ جنت کے دل پاک ہو جائیں گے اور ان سے حسد، بغض اور تمام کدورتیںدور ہو جائیں گی۔