مُّتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ ۖ لَا يَرَوْنَ فِيهَا شَمْسًا وَلَا زَمْهَرِيرًا
یہ وہاں تختوں پر تکیے لگائے ہوئے بیٹھیں گے۔ نہ وہاں آفتاب کی گرمی دیکھیں گے نہ سردی کی سختی۔ (١)
مُتَّكِـِٕيْنَ فِيْهَا عَلَى الْاَرَآىِٕكِ ....: ’’ شَمْسًا ‘‘ سے مراد سخت دھوپ اور گرمی اور ’’ زَمْهَرِيْرًا ‘‘ سے مراد سخت سردی ہے، یعنی جنت کا موسم نہایت خوش گوار اور معتدل ہوگا، اس میں نہ تکلیف دہ گرمی ہو گی نہ سردی۔ اس کے برعکس جہنم میں شدید گرمی یعنی آگ کا عذاب بھی ہو گا اور شدید سردی (زمہریر) کا بھی، بلکہ دنیا میں شدید گرمی اور شدید سردی کا اصل بھی جہنم ہی سے ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَاشْتَكَتِ النَّارُ إِلٰی رَبِّهَا فَقَالَتْ يَا رَبِّ! أَكَلَ بَعْضِيْ بَعْضًا فَأَذِنَ لَهَا بِنَفَسَيْنِ، نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ، وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ، فَهُوَ أَشَدُّ مَا تَجِدُوْنَ مِنَ الْحَرِّ، وَ أَشَدُّ مَا تَجِدُوْنَ مِنَ الزَّمْهَرِيْرِ )) [ بخاري، مواقیت الصلاۃ، باب الإبراد بالظھر في شدۃ الحر : ۵۳۷ ] ’’آگ نے اپنے رب کے پاس شکایت کی اور کہا : ’’اے میرے رب! میرے بعض حصے بعض کو کھا گئے۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس نکالنے کی اجازت دے دی، ایک سانس گرمی میں اور ایک سردی میں۔ یہ وہی ہے جو تم سخت گرمی محسوس کرتے ہو اور جو تم سخت زمہریر(سردی) محسوس کرتے ہو۔‘‘