وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا
اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں مسکین یتیم اور قیدیوں کو۔
1۔ وَ يُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ ....: اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی درست ہیں، ایک یہ کہ خود کھانے کی خواہش و ضرورت کے باوجود وہ دوسرے مستحقین کو کھلا دیتے ہیں، دوسرا یہ کہ اللہ کی محبت کی وجہ سے ان لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ یہاں پہلا معنی زیادہ موزوں ہے، کیونکہ دوسرا معنی تو اگلی آیت : ﴿ اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ﴾ (ہم تو تمھیں صرف اللہ کی رضا کے لیے کھلاتے ہیں) میں آہی رہا ہے، لہٰذا تکرار سے بہتر ہے کہ الگ الگ مفہوم مراد لیا جائے۔ مزید دیکھیے سورۂ حشر کی آیت (۹) : ﴿ وَ يُؤْثِرُوْنَ عَلٰى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﴾کی تفسیر۔ 2۔ مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلانا ان اہم ترین مواقع میں سے ہے جہاں صدقہ کرنے کا حق ہے، کیونکہ مسکین وہ ہے جس کی کمائی سے اس کی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں، یتیم اس سے بھی عاجز ہے، کیونکہ اس کا کمانے والا فوت ہوچکا ہے اور وہ کم عمر ہونے کی وجہ سے کمائی نہیں کر سکتا اور قیدی ان دونوں سے زیادہ عاجز ہے، کیونکہ اسے کسی چیز کا اختیار ہی نہیں، وہ کلیتاً دوسروں کے رحم و کرم پر ہے۔ 3۔ زمانۂ جاہلیت میں اسیروں سے بہت برا سلوک کیا جاتا تھا، انھیں بیڑیاں لگا کر ہر روز باہر نکالا جاتا تاکہ وہ گدائی کے ذریعے سے اپنی ضرورت کی چیزیں لوگوں سے حاصل کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اسیروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا اور ’’ابرار‘‘ کی صفت بیان فرمائی کہ وہ خود ضرورت مند ہونے کے باوجود مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں کے متعلق صحابہ کو تاکید فرمائی کہ ان کا اکرام کریں۔ چنانچہ وہ کھانے کے وقت انھیں اپنے آپ پر مقدم رکھتے۔ (ابن کثیر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمانوں کے ہاں اسیر کافر لوگ ہی تھے جو جنگ میں گرفتار ہو کر آتے تھے، آپ کے زمانے میں مسلمان اسیر نہیں رکھے جاتے تھے، مگر آیت کے الفاظ عام ہیں، اس لیے کوئی مشرک اسیر ہو یا کسی جرم یا مطالبے میں گرفتار مسلم اسیر، سب سے حسن سلوک لازم ہے، بلکہ مسلمان اسیروں سے احسان بالاولیٰ لازم ہے۔ اس کے علاوہ غلام بھی اسیر میں شامل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری وصیت میں فرمایا : (( اَلصَّلَاةَ وََ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ )) [ ابن ماجہ، الوصایا، باب وھل أوصٰی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم : ۲۶۹۸۔ أبو داؤد : ۵۱۵۶، وقال الألباني صحیح ] ’’نماز اور اپنے غلاموں کا خیال رکھنا۔‘‘ 4۔ اس آیت کی شان نزول میں علی و فاطمہ اور ان کی لونڈی فضّہ رضی اللہ عنھم کے حسنین رضی اللہ عنھما کی صحت کے لیے تین روزوں کی نذر ماننے اور افطار کے وقت قرض لائے ہوئے جو سے تیار کردہ پانچ روٹیاں سب کی سب ایک دن مسکین، دوسرے دن یتیم اور تیسرے دن اسیر کو دے دینے کی جو روایت بیان کی جاتی ہے وہ بالکل من گھڑت اور موضوع ہے۔ ابن جوزی نے اسے ’’الموضوعات‘‘ میں ذکر کیا ہے اور قرطبی نے تفصیل سے اس پر جرح کی ہے۔ اہلِ بیت نبوت کے فضائل کا ثبوت اس قسم کی موضوع روایات کا محتاج نہیں اور نہ ہی یہ کوئی نیکی ہے کہ مسکین کو ایک کے بجائے پانچوں روٹیاں دے دی جائیں اور تین دن رات بچوں کو بھوکا رکھا جائے۔ 5۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ یتیموں، مسکینوں اور اسیروں کو، خواہ و ہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، کھانا کھلانے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ ہاں فرض زکوٰۃ صرف مسلمانوں پر خرچ ہوگی، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِهِمْ )) [ بخاري، الزکاۃ، باب أخذ الصدقۃ من الأغنیاء....: ۱۴۹۶ ] ’’(فرض صدقہ) مسلمانوں کے اغنیا سے لیا جائے گا اور ان کے فقراء پر خرچ کیا جائے گا۔‘‘