عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّهِ يُفَجِّرُونَهَا تَفْجِيرًا
جو ایک چشمہ ہے (١) جس سے اللہ کے بندے پئیں گے اس کی نہریں نکال لے جائیں گے (٢) (جدھر چاہیں)۔
عَيْنًا يَّشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللّٰهِ ....: ’’ عِبَادُ اللّٰهِ ‘‘ اگرچہ سب لوگ ہی اللہ کے بندے ہیں مگر یہاں مراد اللہ کے خاص بندے ہیں، جیسا کہ’’عِبَادُ الرَّحْمٰنِ‘‘ (رحمان کے بندے)، ’’نَاقَةُ اللّٰهِ‘‘ (اللہ کی اونٹنی) اور’’بَيْتُ اللّٰهِ‘‘ (اللہ کا گھر ) میں خصوصیت پیدا ہو گئی ہے۔ یعنی اللہ کے یہ خاص بندے ابرار کافور کی آمیزش والی شراب کا جو جام پییں گے وہ ایک جام ہی نہیں ہو گا بلکہ کافور کی آمیزش والا ایک چشمہ ہو گا جس سے مومن جہاں چاہے گا شاخ نکال کر لے جائے گا۔ بعض مفسرین نے ’’ الْاَبْرَارَ ‘‘ اور’’ عِبَادُ اللّٰهِ ‘‘ کو الگ الگ قرار دے کر یہ معنی کیا ہے کہ ابرار یعنی نیک لوگوں کو پلائے جانے والے شراب کے جام میں کافور نامی چشمے میں سے کچھ ملاوٹ ہو گی، جس طرح کسی کے شربت میں کوئی خوشبو دار شربت مثلاً روح افزا ملا دیا جائے، جب کہ ’’عباداللہ‘‘ یعنی اللہ کے مقرب بندوں کو کافور کے چشمے کی صرف آمیزش ہی نہیں بلکہ اس کا خالص پانی جتنا وہ چاہیں گے ملے گا ۔ مجھے پہلا معنی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ (واللہ اعلم)