إِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِن كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا
بیشک نیک لوگ وہ جام پئیں گے جس کی امیزش کافور کی ہے۔ (١)
1۔ اِنَّ الْاَبْرَارَ يَشْرَبُوْنَ مِنْ كَاْسٍ ....: ’’ الْاَبْرَارَ ‘‘ ’’بَارٌّ‘‘ یا ’’بَرٌّ‘‘ کی جمع ہے، نیکی کرنے والے۔ ’’ كَاْسٍ ‘‘ وہ برتن جس سے پیا جائے۔ عام طور پر ’’كَأْسٌ‘‘ کا لفظ اس برتن پر بولتے ہیں جس میں شراب موجود ہو۔ ’’مِزَاجٌ‘‘ آمیزش، ملونی، وہ چیز جو لذت یا خوشبو میں اضافے کے لیے مشروب میں ملائی جائے۔ ’’ كَافُوْرًا ‘‘ ایک خوشبو دار پودا، اس پودے سے نکلنے اور حاصل ہونے والی خوشبو جو تاثیر میں نہایت ٹھنڈی ہوتی ہے۔ 2۔ کفار کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ کا ذکر کرنے کے بعد نیک لوگوں کے متعلق فرمایا کہ وہ شراب کے ایسے جام پییں گے جن میں کافور کی آمیزش ہو گی،یعنی بھڑکتی ہوئی آگ کے بجائے انھیں ایسی شراب ملے گی جس میں ٹھنڈی تاثیر اور خوشبودار کافور کی آمیزش ہو گی۔ واضح رہے کہ دنیاکے کافور اور جنت کے کافور میں صرف نام کی مشابہت ہے، جیسا کہ دنیا کی شراب اور جنت کی شراب میں صرف نام کی مشابہت ہے کہ جنت کی شراب میں سرور و نشاط وغیرہ کی وہ خوبیاں تو ہوں گی جو دنیا کی شراب میں ہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہوں گی، مگر وہ دنیا کی شراب کی خرابیوں مثلاً بد بو، زوال عقل، خمار اور اعضا شکنی وغیرہ سے پاک ہو گی۔ اسی طرح جنت کے کافور میں وہ ٹھنڈک، لطافت اور خوشبو تو ہو گی جو دنیا کے کافور میں ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ہو گی، مگر وہ دنیوی کافور کی خرابیوں مثلاً اس کی زہریلی تاثیر اور بو میں ایک ناگوار سے احساس سے پاک ہوگا۔ ’’مِزَاجٌ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ابرار کوملنے والی شراب میں خوشبو اور لذت کے اضافے کے لیے کافور کے چشمے سے آمیزش کی جائے گی، جس سے اس کی تیزی اور حرارت اعتدال پر آجائے گی۔