سورة الإنسان - آیت 2

إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بیشک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے امتحان کے لئے (١) پیدا کیا اور اس کو سنتا دیکھتا بنایا (٢)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ: یعنی انسان کی پیدائش صر ف مرد یا صرف عورت کے نطفہ سے نہیں ہوئی بلکہ دونوں کے ملے جلے نطفہ سے ہوئی ہے، کیونکہ دونوں کے ملنے ہی سے حمل منعقد ہوتا ہے۔ ام سلیم رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ مَاءَ الرَّجُلِ غَلِيْظٌ أَبْيَضُ وَ مَاءَ الْمَرْأَةِ رَقِيْقٌ أَصْفَرُ فَمِنْ أَيِّهِمَا عَلَا أَوْ سَبَقَ يَكُوْنُ مِنْهُ الشَّبَهُ )) [مسلم، الحیض، باب وجوب الغسل علی المرأۃ....: ۳۱۱] ’’ مرد کا پانی سفید گاڑھا اور عورت کا پانی پتلا زرد ہوتا ہے، ان میں سے جو غالب آجائے یا سبقت کر جائے اسی سے مشابہت ہوتی ہے۔‘‘ نَبْتَلِيْهِ: ہم اسے آزماتے ہیں، یعنی انسان کو پیدا کرنے کا مقصد اس کی آزمائش ہے کہ اچھے عمل کرتا ہے یا برے، جیسے فرمایا : ﴿ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ [ الملک : ۲]’’(اللہ تعالیٰ نے موت و حیات کو اس لیے پیدا فرمایا) تاکہ تمھاری آزمائش کرے کہ تم میں سے کون عمل میں بہتر ہے۔‘‘ فَجَعَلْنٰهُ سَمِيْعًا بَصِيْرًا: ’’ہم نے اسے سننے والا، دیکھنے والا بنایا‘‘ اگرچہ جانور بھی سنتے اور دیکھتے ہیں مگر انھیں ’’سمیع و بصیر‘‘ نہیں کہا جاتا، کیونکہ وہ عقل کی نعمت سے محروم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سننے اور دیکھنے کی ایسی قوتیں دی ہیں جن سے وہ اچھے برے میں تمیز کرسکتاہے اور بہت دور تک سوچ سکتا ہے۔ گویا دوسرے جانور اس کے مقابل بہرے اور اندھے ہیں۔