فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں۔
1۔ فَلَا وَ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ:اس آیت کی شان نزول میں ایک مسلمان اور یہودی کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیصلہ کروانے کے بعد عمر رضی اللہ عنہ سے فیصلہ کروانے گیا تھا، جس پر عمر رضی اللہ عنہ نے اس مسلمان کی گردن اڑا دی تھی۔ مگر یہ واقعہ سنداً صحیح نہیں ہے، جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی وضاحت کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے اصرار کے باوجود منافقوں کی بڑی بڑی گستاخیوں پر نہ انھیں قتل کرتے، نہ قتل کی اجازت دیتے اور وجہ یہ بتاتے تھے کہ لوگ کہیں گے کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں۔ [ مسلم، الزکوٰۃ، باب ذکر الخوارج : ۱۰۶۳ ] 2۔ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ زبیر رضی اللہ عنہ اور ایک انصاری کے درمیان حرہ کی نالیوں میں جھگڑا ہو گیا۔ زبیر رضی اللہ عنہ کی زمین اوپر کی جانب تھی ، جہاں سے پانی آتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ سے انصاری کے حق میں رعایت کی سفارش کی اور فرمایا : ’’اپنے باغ کو پانی دے کر اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو۔‘‘ اس پر انصاری نے کہا : ’’ یہ اس لیے کہ زبیر ( رضی اللہ عنہ ) آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔‘‘ مطلب یہ تھا کہ آپ نے اس رشتے کی رعایت کی ہے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف محسوس ہوئی اور فرمایا : ’’ زبیر ! اپنے باغ کو اتناپانی دو کہ منڈیروں تک چڑھ جائے، پھر اس کے لیے چھوڑ دو۔‘‘ پہلے آپ نے انصاری کی سفارش کی تھی، اب جب اس نے آپ کو غصہ دلایا تو آپ نے سفارش کے بجائے فیصلہ کیا اور زبیر رضی اللہ عنہ کو ان کا پورا حق دلوایا۔ زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ یہ آیت : ﴿ فَلَا وَ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ ﴾ اس بارے میں نازل ہوئی۔ [ مسلم،الفضائل، باب وجوب اتباعہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ۲۳۵۷۔ بخاری : ۴۵۸۵ ] 3۔ حَتّٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر مومن ہونے کی تین شرطیں بیان کی ہیں، پہلی یہ کہ کسی بھی جھگڑے کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور کے پاس نہ لے جایا جائے۔ ( دیکھیے نور : ۵۱۔ احزاب : ۳۶) دوسری یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر دل میں کسی قسم کی تنگی محسوس نہ کی جائے اور تیسری یہ کہ صاف اعلان کر کے اس فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر عمل کیا جائے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قرآن و سنت سے فیصلہ طلب کیا جائے گا۔ اس سے منکرین حدیث کے ایمان کی حقیقت پوری طرح کھل جاتی ہے۔ یہ آیت منکرین حدیث کے علاوہ ان لوگوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے جن کے امام یا پیر کے خلاف کوئی آیت یا حدیث آ جائے تو وہ صرف دل میں تنگی ہی محسوس نہیں کرتے بلکہ ماننے سے صاف انکار کر دیتے ہیں کہ کیا ہمارے امام کو اس آیت و حدیث کا علم نہ تھا، یا پھر اس کی تاویل کرنے یا اسے منسوخ قرار دینے کے لیے اپنی ساری قوت صرف کر دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آیت کے صریح الفاظ کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے خلاف دل میں ذرہ بھر تنگی یا نا پسندیدگی محسوس کی جائے تو یہ ایمان کے منافی ہے۔