فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ
اہل جنت بالاخانوں میں بیٹھے وہ سوال کرتے ہونگے گے۔ (١)
1۔ فِيْ جَنّٰتٍ يَتَسَآءَلُوْنَ....: یعنی اصحاب الیمین جنتوں میں ایک دوسرے سے مجرموں کے بارے میں سوال کریں گے کہ فلاں مجرم کا کیا بنا اور فلاں کدھر گیا؟ ذرا جہنم ہی میں انھیں تلاش کریں، پھر جہنم میں جھانک کر دیکھیں گے اور وہ انھیں وہاں نظر آئیں گے تو ان سے کہیں گے : ﴿مَا سَلَكَكُمْ فِيْ سَقَرَ﴾ ’’تمھیں جہنم میں کس چیز نے داخل کیا؟‘‘ آیات کی یہ تفسیر’’ يَتَسَآءَلُوْنَ ‘‘ (تفاعل) اور’’عَنْ‘‘کے اس ترجمے کے مطابق ہے جو اکثر استعمال ہوا ہے۔ ’’ مَا سَلَكَكُمْ فِيْ سَقَرَ ‘‘ سے پہلے ’’يَقُوْلُوْنَ لَهُمْ‘‘ مقدر ہے۔ سورۂ صافات میں اس سے ملتا جلتا منظر مذکور ہے، فرمایا : ﴿ فَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ يَّتَسَآءَلُوْنَ (50) قَالَ قَآىِٕلٌ مِّنْهُمْ اِنِّيْ كَانَ لِيْ قَرِيْنٌ (51) يَّقُوْلُ اَىِٕنَّكَ لَمِنَ الْمُصَدِّقِيْنَ (52) ءَاِذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًا وَّ عِظَامًا ءَاِنَّا لَمَدِيْنُوْنَ (53) قَالَ هَلْ اَنْتُمْ مُّطَّلِعُوْنَ (54) فَاطَّلَعَ فَرَاٰهُ فِيْ سَوَآءِ الْجَحِيْمِ (55) قَالَ تَاللّٰهِ اِنْ كِدْتَّ لَتُرْدِيْنِ (56) وَ لَوْ لَا نِعْمَةُ رَبِّيْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِيْنَ (57) اَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِيْنَ (58) اِلَّا مَوْتَتَنَا الْاُوْلٰى وَ مَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِيْنَ (59) اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ (60) لِمِثْلِ هٰذَا فَلْيَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ ﴾ [ الصافات : ۵۰ تا ۶۱ ] ’’پھر ان کے بعض بعض کی طرف متوجہ ہوں گے، ایک دوسرے سے سوال کریں گے۔ ان میں سے ایک کہنے والا کہے گا بے شک میں، میرا ایک ساتھی تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ کیا واقعی تو بھی ماننے والوں میں سے ہے۔ کیا جب ہم مر گئے اور ہم مٹی اور ہڈیاں ہو گئے تو کیا واقعی ہم ضرور جزا دیے جانے والے ہیں؟ کہے گا کیا تم جھانک کر دیکھنے والے ہو؟ پس وہ جھانکے گا تو اسے بھڑکتی آگ کے وسط میں دیکھے گا۔ کہے گا اللہ کی قسم! یقیناً تو قریب تھا کہ مجھے ہلاک ہی کر دے۔ اور اگر میرے رب کی نعمت نہ ہوتی تو یقیناً میں بھی ان میں ہوتا جو حاضر کیے گئے ہیں۔ تو کیا ہم کبھی مرنے والے نہیں ہیں۔ مگر ہماری پہلی موت اور نہ ہم کبھی عذاب دیے جانے والے ہیں۔ یقیناً یہی تو بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس جیسی (کامیابی) ہی کے لیے پس لازم ہے کہ عمل کرنے والے عمل کریں۔‘‘ آیات کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ ’’يَتَسَآءَلُوْنَ‘‘ ’’يَسْأَلُوْنَ‘‘کے معنی میں ہے اور ’’ عَنْ‘‘ زائد ہے : ’’أَيْ يَسْأَلُوْنَ الْمُجْرِمِيْنَ‘‘ یعنی اصحاب الیمین مجرموں سے سوال کریں گے کہ تمھیں کس چیز نے جہنم میں داخل کر دیا؟ اصحاب الیمین کا جہنمیوں سے یہ سوال پوچھنے کے لیے نہیں بلکہ انھیں ذلیل و خوار اور شرمندہ کرنے کے لیے ہو گا ۔ 2۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ جنت و جہنم کے درمیان بے حساب دوری کے باوجود جنتی جہنمیوں کو دیکھیں گے اور ان سے سوال و جواب بھی کریں گے۔