إِنَّهُ فَكَّرَ وَقَدَّرَ
اس نے غور کرکے تجویز کی (١)
اِنَّهٗ فَكَّرَ وَ قَدَّرَ ....: کفار کو مشکل یہ در پیش تھی کہ وہ لوگوں کو قرآن مجید سے دور رکھنے کے لیے اس کے متعلق جو کچھ بھی کہتے کوئی اسے ماننے کے لیے تیار نہیں تھا، خود ان کے دل اس سے انکار کرتے تھے۔ وہ قرآن کو شعر، کہانت اور جادو کہہ کر اس سے متنفر کرتے تھے، مگر جانتے اور مانتے تھے کہ نہ اس میں شاعروں کے شعر کا مبالغہ یا جھوٹ ہے، نہ کاہنوں کی تک بندی ہے اور نہ جادوگروں کے ٹونے ٹوٹکے۔ اس لیے ان کے بڑے بڑے سرداروں نے، جن میں ولید بن مغیرہ بھی شامل تھا، اپنے دماغ کی ساری صلاحیتیں صرف کرکے جو نتیجہ نکالا وہ دو باتوں پر مشتمل تھا، ایک یہ کہ یہ وہی جادو ہے جو ہمیشہ سے چلا آیا ہے، کیونکہ یہ قرآن اتنا پر تاثیر ہے کہ بھائی کو بھائی سے اور باپ کو بیٹے سے جدا کر دیتا ہے، حالانکہ وہ جادو اور جادوگروں سے خوب واقف تھے اور جانتے تھے کہ ہر مؤثر کلام جادو نہیں ہوتا۔ دوسرا نتیجہ قرآن کی عظمت گھٹانے کے لیے یہ نکالا کہ یہ ربانی کلام نہیں بلکہ انسان کا کلام ہے، حالانکہ ان کے سامنے یہ چیلنج موجود تھا کہ اگر یہ انسانی کلام ہے تو تم اس جیسی ایک سورت ہی بنا کر لے آؤ۔ آج بھی یورپ و امریکہ اور دوسرے ممالک کے تحقیقی ادارے مسلمان طالب علموں کو بھاری وظیفے دے دے کر اپنے اداروں میں اس موضوع پر پی ایچ ڈی کرواتے ہیں کہ کسی طرح یہ ثابت ہو جائے کہ قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تصنیف ہے، حالانکہ اتنی محنت کے بجائے یہی کافی تھا کہ وہ تین آیات ہی کی کوئی ایک سورت پیش کر دیتے جو وہ نہیں کر سکے اور نہ کر سکتے ہیں۔ ’’ اِنَّهٗ فَكَّرَ وَ قَدَّرَ‘‘سے ’’ ثُمَّ اَدْبَرَ وَ اسْتَكْبَرَ‘‘ تک ان کیفیات کا ذکر ہے جن کا اظہار کرکے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ وہ اپنے دماغ کی آخری قوت تک صرف کرکے یہ نتیجہ نکال رہے ہیں، حالانکہ ان کے تیوری چڑھانے، برا منہ بنانے اور تکبر سے پیٹھ پھیر کر بات کرنے سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ یہ بات انصاف سے نہیں کہہ رہے، بلکہ اس کا باعث صرف اور صرف عناد اور تکبر تھا۔