ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا
مجھے اور اسے چھوڑ دے جسے میں نے اکیلا پیدا کیا ہے (١)
1۔ ذَرْنِيْ وَ مَنْ خَلَقْتُ وَحِيْدًا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو جھٹلانے میں سب سے پیش پیش مکہ کے بڑے بڑے سردار تھے جنھیں اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی خوش حالی اور دنیوی نعمتیں عطا فرمائی ہوئی تھیں، مگر انھوں نے مال و اولاد، جاہ و حشمت اور اقتدار پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے بجائے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا دیا اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کے بجائے اسے جادو اور انسانی کلام قرار دیا ۔ ان لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ ان لوگوں کے معاملے کو مجھ پر چھوڑ دیں، میں جانوں اور یہ جانیں، ان کا بندو بست میں خود کروں گا۔ ان آیات سے اکثر مفسرین نے اگرچہ ایک خاص شخص ولید بن مغیرہ مراد لیا ہے، مگر ’’ وَ مَنْ خَلَقْتُ وَحِيْدًا ‘‘ میں ’’ مَنْ ‘‘ کا لفظ واحد ہونے کے باوجود معنی کے لحاظ سے عام ہے اور آیت میں مذکور مال و دولت اور اولاد و اقتدار صرف ولید ہی کے پاس نہ تھا اور نہ ہی وہ اکیلا قرآن کو جادو اور انسانی کلام قرار دیتا تھا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے والے اکثر متکبرین کا یہی حال تھا،اس لیے ان آیات میں ان سب کو تنبیہ کی گئی ہے۔ ہاں، یہ درست ہے کہ یہ آیات ولید بن مغیرہ پر بھی صادق آتی ہیں اور وہ بھی ان لوگوں میں شامل ہے جو ان آیات سے مراد ہیں اور ان آیات کے اس کے متعلق نازل ہونے کا مطلب بھی یہی ہے، مگر وہ اکیلا ان آیات کا مصداق نہیں بلکہ ان سے ولید بن مغیرہ کے علاوہ ان صفات والے تمام متکبر مراد ہیں، خواہ وہ مکہ کے رہنے والے ہوں یا دنیا کے کسی دوسرے خطہ میں رہنے والے ہوں۔ 2۔ ’’ خَلَقْتُ وَحِيْدًا ‘‘ کے دو معانی ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ میں نے اسے اس حال میں پیدا کیا کہ وہ اکیلا تھا، نہ اس کی خدمت میں حاضر رہنے والے بیٹے تھے اور نہ کوئی مال و متاع۔ ہر انسان ماں کے پیٹ سے اکیلا آتا ہے، مال و اولاد، فوج و لشکر اور سامان وغیرہ کچھ ساتھ نہیں لاتا، جیسا کہ فرمایا: ﴿ وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰى كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ﴾ [ الأنعام : ۹۴ ] ’’اور بے شک تم ہمارے پاس اکیلے اکیلے آگئے، جیسے ہم نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا تھا۔‘‘ دوسرا یہ کہ میں نے اکیلے ہی اسے پیدا کیا اور اسے یہ سب کچھ عطا کیا، اسے پیدا کرنے میں یا یہ مال و اولاد عطا کرنے میں کوئی دوسرا میرے ساتھ شریک نہ تھا۔