إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا
یقیناً ہم تجھ پر بہت بھاری بات عنقریب نازل کریں گے (١)
1۔ اِنَّا سَنُلْقِيْ عَلَيْكَ ....: اس آیت میں اور اس کے بعد والی دو آیتوں میں رات کے قیام کے حکم کی حکمت بیان فرمائی گئی ہے کہ وحی الٰہی کا بھاری بوجھ اٹھانے کی استعداد پیدا کرنے کے لیے رات کا قیام اور اس میں پورے غورو فکر کے ساتھ قرآن کی تلاوت نہایت ضرور ی ہے۔ 2۔ ’’ قَوْلًا ثَقِيْلًا‘‘(بھاری کلام) سے مراد وحی الٰہی ہے جو اترتے وقت بھی بھاری ہے، ہر کلام اور ہر چیز سے بھاری ہے، اس پر عمل بھاری ہے اور اسے تمام دنیا تک پہنچانے کا فریضہ بھی بہت بھاری ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے : (1) نزول وحی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت بوجھ پڑتا تھا، جسے برداشت کرنا آپ پر بہت بھاری تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ سخت سردی کے دن آپ پر وحی نازل ہوتی اور جب وہ حالت ختم ہوتی تو آپ کی پیشانی سے پسینا ٹپک رہا ہوتا۔ [ بخاري، بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي : ۲] زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تو آپ کی ران میری ران پر تھی، آپ کی ران کا اتنا بوجھ تھا، قریب تھا کہ وہ میری ران کو کچل دے۔ [ دیکھیے بخاري : ۲۸۳۲ ] عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی پر سوار ہوتے، آپ پر وحی اترتی تو اونٹنی زمین پر گردن رکھ دیتی۔ [ دیکھیے مسند أحمد:6؍118، ح : ۲۴۹۲۱ ] (2) یہ کلام دوسرے تمام کلاموں سے بھاری ہے، باقی سب کلام اس کے مقابلے میں ہیچ ہیں۔ (3) اس کے احکام پر عمل کرنا بھاری ہے۔ فرائض پنج گانہ اور دوسرے احکام بجا لانا اور اس کی منع کردہ چیزوں سے اجتناب کرنا نفس پر بہت بھاری ہے۔ (4) یہ اس لیے بھی بھاری ہے کہ اسے تمام دنیا کے لوگوں تک پہنچانے کا حکم ہے جو نہایت دشوار کام ہے۔ اس کے لیے آپ کو لوگوں کی مخالفت، طعن و ملامت، ٹھٹھا و مذاق، گالی گلوچ، جسمانی ایذا، قتل کی سازشیں اور ہجرت و جہاد سب کچھ برداشت کرنا ہوگا۔