وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدًا وَشُهُبًا
اور ہم نے آسمان کو ٹٹول کر دیکھا تو اسے سخت چوکیداروں اور سخت شعلوں سے پر پایا (١)
1۔ وَ اَنَّا لَمَسْنَا السَّمَآءَ فَوَجَدْنٰهَا مُلِئَتْ....: اللہ تعالیٰ نے ستاروں کو آسمان کی زینت کے علاوہ ان شیاطین سے حفاظت کا ذریعہ بھی بنایا ہے جو آسمان کے قریب جا کر فرشتوں کی باتیں سننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کو ہٹانے کے لیے ہر طرف سے ان پر شہابوں(انگاروں) کی بارش ہوتی ہے۔ (دیکھیے صافات : ۶ تا ۱۰) عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ الْمَلاَئِكَةَ تَنْزِلُ فِي الْعَنَانِ وَهُوَ السَّحَابُ فَتَذْكُرُ الْأَمْرَ قُضِيَ فِي السَّمَاءِ، فَتَسْتَرِقُ الشَّيَاطِيْنُ السَّمْعَ، فَتَسْمَعُهُ فَتُوْحِيْهِ إِلَی الْكُهَّانِ، فَيَكْذِبُوْنَ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ مِّنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ )) [ بخاري، بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ صلوات اللّٰہ علیھم:۳۲۱۰] ’’فرشتے عنان یعنی بادل میں اترتے ہیں اور (آپس میں) اس بات کا ذکر کرتے ہیں جس کا آسمان میں فیصلہ کیا گیا ہوتا ہے، تو شیطان چوری سے وہ بات سننے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے سن لیتے ہیں، پھر وہ یہ بات کاہنوں کو چپکے سے پہنچا دیتے ہیں، پھر کاہن اس میں اپنی طرف سے سو جھوٹ ملا دیتے ہیں۔‘‘ 2۔ مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيْدًا وَّ شُهُبًا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے بھی عالم بالا کی حفاظت کا انتظام تھا، مگر جن کوئی نہ کوئی بات سن لیتے تھے اور انھیں بالائی فضا میں چھپ کر بیٹھنے کی بھی کوئی نہ کوئی جگہ مل جاتی تھی، اب ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد) جب وہ سننے کے لیے اوپر گئے تو ساری بالائی فضا سخت پہرے اور مسلسل شہابوں کی بارش سے بھری ہوئی تھی۔ ’’ مُلِئَتْ ‘‘ سے معلوم ہو رہا ہے کہ اب پہرے کا نظام پہلے سے بہت سخت ہو گیا تھا۔ اس سے انھیں پریشانی ہوئی اور وہ تلاش میں نکلے کہ اس بندوبست کا باعث کیا ہے؟ جیسا کہ اس سورت کی شان نزول میں گزر چکا ہے۔ 3۔ قرآن مجید کی بہت سی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جن انسانوں سے الگ مخلوق ہیں جو مٹی سے نہیں بلکہ آگ سے پیدا کیے گئے ہیں اور جو انسان کی پیدائش سے پہلے موجود تھے۔ جن آسمان کے قریب جا سکتے ہیں اور بعض اوقات عالم بالا کی ایک آدھ بات چرا سکتے ہیں، انھیں انسانوں ہی میں سے سرکش قوم یا چھپے ہوئے جراثیم قرار دے کر ان کا انکار کر دینا قرآن و حدیث کا انکار ہے۔ کسی چیز کے انکار کی یہ بنیاد کہ اگر وہ موجود ہوتی تو نظر آتی، بے حد کمزور بنیاد ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ اعراف (38،27)، ہود (۱۱۹)، حم سجدہ (۲۵، ۲۹) اور سورۂ احقاف (۱۸، ۲۹، ۳۲)۔ آدم اور ابلیس کا قصہ جو قرآن مجید میں سات مقامات پر بیان ہوا ہے اور سورۂ رحمان پوری اس بات کی شاہد ہے کہ جن اور انسان الگ الگ مخلوق ہیں۔