بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے (سورۃ الجن۔ سورۃ نمبر ٧٢۔ تعداد آیات ٢٨)
ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ سوق عکاظ کی طرف جانے کے ارادے سے روانہ ہوئے، (یہ اس وقت کی بات ہے جب) شیاطین اور آسمان کی خبروں کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی اور (جب وہ اوپر خبریں سننے کے لیے گئے تو) ان پر انگارے پھینکے گئے۔ وہ شیطان( جب آسمان سے خبریں نہ سن سکے اور) اپنی قوم کی طرف واپس آئے تو انھوں نے پوچھا: ’’کیا معاملہ ہے؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’ ہمارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی ہے اور ہم پر انگارے پھینکے گئے ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا : ’’تمھارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان رکاوٹ کی وجہ کوئی نئی پیدا ہونے والی چیز ہی ہو سکتی ہے، اس لیے تم زمین کے مشارق و مغارب کا سفر کرکے دیکھو کہ وہ کون سی چیز ہے جو تمھارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان رکاوٹ بنی ہے۔‘‘ تو وہ لوگ جو تہامہ کی طرف روانہ ہوئے تھے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت پہنچے جب آپ نخلہ میں تھے اور سوق عکاظ کا ارادہ رکھتے تھے۔ آپ اس وقت اپنے اصحاب کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے، جب انھوں نے قرآن سنا تو کان لگا کر سننے لگے اور کہنے لگے : ’’اللہ کی قسم! یہی وہ چیز ہے جو تمھارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان رکاوٹ بنی ہے۔‘‘ اس موقع پر جب وہ اپنی قوم کی طرف واپس آئے تو انھوں نے کہا : ’’اے ہماری قوم! ﴿ اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا (1) يَّهْدِيْ اِلَى الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِهٖ وَ لَنْ نُّشْرِكَ بِرَبِّنَا اَحَدًا ﴾ [ الجن : 2,1 ] ’’بلاشبہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا، جو سیدھی راہ کی طرف لے جاتا ہے تو ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم کبھی کسی کو اپنے رب کے ساتھ شریک نہیں کریں گے۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر یہ آیات نازل فرمائیں : ﴿ قُلْ اُوْحِيَ اِلَيَّ﴾اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جنوں کی گفتگو وحی کی گئی تھی۔ [ بخاري، الأذان، باب الجہر بقراءۃ صلاۃ الصبح : ۷۷۳۔ مسلم : ۴۴۹ ]