وَقَدْ أَضَلُّوا كَثِيرًا ۖ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا ضَلَالًا
اور انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا (١) (الٰہی) تو ان ظالموں کی گمراہی اور بڑھا۔ (١)
وَ قَدْ اَضَلُّوْا كَثِيْرًا ....: یعنی قوم کے ان سرداروں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا۔’’ وَ لَا تَزِدِ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا ضَلٰلًا ‘‘ (اور ان ظالموں کو گمراہی کے علاوہ کسی چیز میں نہ بڑھا ) یہ دعا درحقیقت عذاب کے لیے ہے، کیونکہ گمراہی پر قائم رہنے اور اس میں مزید بڑھتے چلے جانے کا نتیجہ یہی ہے کہ وہ عذابِ الٰہی کے مستحق ہو جائیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے آل فرعون کے حق میں یہی بددعا کی تھی: ﴿رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰى اَمْوَالِهِمْ وَ اشْدُدْ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْا حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ ﴾ [ یونس : ۸۸ ] ’’اے ہمارے رب! ان کے مالوں کو مٹا دے اور ان کے دلوں پر سخت گرہ لگا دے، پس وہ ایمان نہ لائیں، یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔‘‘ ضمیر کی جگہ ’’ الظّٰلِمِيْنَ ‘‘ کے لفظ کی صراحت سے ان لوگوں کے عذاب کی بد دعا کے مستحق ہونے کا سبب بیان ہوا ہے۔