تَدْعُو مَنْ أَدْبَرَ وَتَوَلَّىٰ
وہ ہر شخص کو پکارے گی جو پیچھے ہٹتا اور منہ موڑتا ہے۔
1۔ تَدْعُوْا مَنْ اَدْبَرَ وَ تَوَلّٰى : یعنی جن لوگوں نے دنیا میں ایمان کی طرف بلائے جانے پر پیٹھ پھیر لی اور منہ موڑ لیا تھا اب جہنم انھیں اپنی طرف بلائے گی اور اس طرح نہیں بلائے گی کہ چاہیں تو جائیں اور چاہیں تو نہ جائیں۔ 2۔ وَ جَمَعَ فَاَوْعٰى : ’’أَوْعٰي‘‘ ’’وِعَاءٌ‘‘ برتن کو کہتے ہیں، یعنی برتن میں بند رکھا۔ پچھلی آیت اور اس آیت سے معلوم ہوا کہ کفار کے جہنم میں جانے کے بڑے اسباب دو ہیں، ایک ایمان نہ لانا بلکہ حق بات سن کر منہ پھیر لینا اور دوسرا شدید بخل۔ دیکھیے سورۂ حاقہ (۳۳، ۳۴)۔ 3۔ جہنم کا کلام کرنا ان آیات سے بھی ثابت ہوتا ہے اور سورۂ ق کی آیت(۳۰) : ﴿ وَ تَقُوْلُ هَلْ مِنْ مَّزِيْدٍ ﴾ سے بھی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يَخْرُجُ عُنُقٌ مِّنَ النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَهُ عَيْنَانِ تُبْصِرَانِ وَأُذُنَانِ تَسْمَعَانِ وَلِسَانٌ يَنْطِقُ يَقُوْلُ إِنِّيْ وُكِّلْتُ بِثَلاَثَةٍ بِكُلِّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ وَبِكُلِّ مَنْ دَعَا مَعَ اللّٰهِ إِلٰهًا آخَرَ وَبِالْمُصَوِّرِيْنَ )) [ترمذي، صفۃ جھنم، باب ما جاء فی صفۃ النار : ۲۵۷۴، وصححہ الألباني ] ’’قیامت کے دن آگ سے ایک گردن نکلے گی جس کی دو آنکھیں ہوں گی جو دیکھتی ہوں گی اور دو کان ہوں گے جو سنتے ہوں گے اور ایک زبان ہوگی جو بولتی ہوگی۔ وہ کہے گی کہ مجھے تین (قسم کے آدمیوں) پر مقرر کیا گیا ہے، ہر جبار عنید پر اور ہر اس شخص پر جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود بنائے اور مصوروں پر۔‘‘ اسی طرح صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنت اور دوزخ کی بحث کی حدیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے، اس لیے جہنم کے کلام کا انکار کرنا یا اس کی تاویل کرنا درست نہیں۔ قرآن مجید کے مطابق قیامت کے دن زمین بھی بات کرے گی اور ہاتھ پاؤں اور چمڑے بھی گفتگو کریں گے، پھر جنت یا جہنم کے بولنے میں کیا تعجب ہے؟