سورة النسآء - آیت 47

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ آمِنُوا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُم مِّن قَبْلِ أَن نَّطْمِسَ وُجُوهًا فَنَرُدَّهَا عَلَىٰ أَدْبَارِهَا أَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّا أَصْحَابَ السَّبْتِ ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اے اہل کتاب جو کچھ ہم نے نازل فرمایا جو اس کی تصدیق کرنے والا ہے جو تمہارے پاس ہے اس پر ایمان لاؤ اس سے پہلے کہ ہم چہرے بگاڑ دیں اور انہیں الٹا کر پیٹھ کی طرف کردیں (١) یا ان پر لعنت بھجیں جیسے ہم نے ہفتے کے دن والوں پر لعنت کی (٢) اور ہے اللہ تعالیٰ کا کام کیا گیا۔ (٣)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ: یہود کی شرارتوں کو بیان کرنے کے بعد اب اس آیت میں انھیں ایمان کی دعوت دی اور ہٹ دھرمی سے احکام خداوندی بجا نہ لانے پر وعید سنائی، کیونکہ یہود عالم تھے اور علم و معرفت کے باوجود ہٹ دھرمی سے کام لے رہے تھے۔ (رازی) اس وعید کا تعلق یا تو قیامت کے دن سے ہے، یا دنیا میں چہروں کو مسخ کر دینا مراد ہے اور اصحاب سبت جیسی لعنت سے مراد یہ ہے کہ جس طرح ان کو بندر اور خنزیر بنا دیا تھا، تمھیں بھی ویسا ہی بنا دیا جائے۔ اصحاب سبت کے قصہ کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۱۶۳)۔ اس وقت یہودی ہوں یا نصرانی یا مسلمان سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں، کلمہ پڑھنے والے امت اجابت، یعنی قبول کر لینے والے ہیں اور دوسرے امت دعوت، یعنی جو آپ کی دعوت کے مخاطب ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ مَسْخٌ وَ خَسْفٌ وَ قَذْفٌ ))[ ابن ماجہ، الفتن، باب الخسوف : ۴۰۵۹، عن ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ ۔ صحیح الجامع للألبانی : ۲۸۵۶ ] ’’قیامت سے پہلے شکلوں کے بدل جانے، زمین میں دھنس جانا اور پتھروں کی بارش کے واقعات رونما ہوں گے۔‘‘ اور سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( سَيَكُوْنُ فِيْ آخِرِ الزَّمَانِ خَسْفٌ وَ قَذْفٌ وَ مَسْخٌ، قِيْلَ وَ مَتٰي ذٰلِكَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ !؟ قَالَ إِذَا ظَهَرَتِ الْمَعَازِفُ وَالْقَيْنَاتُ وَاسْتُحِلَّتِ الْخَمْرُ)) [ المعجم الکبیر : ۶؍۱۵۰، ح : ۵۸۱۰۔ صحیح الجامع للألبانی : ۳۶۶۵ ] ’’ آخر زمانے میں زمین میں دھنسنا، پتھروں کی بارش اور شکلوں کا بدل جانا واقع ہو گا۔‘‘ پوچھا گیا : ’’اے اللہ کے رسول! یہ کب ہو گا؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب باجے گاجے اور گانے والیاں عام ہو جائیں گی اور شراب حلال کر لی جائے گی۔‘‘ اب بھی اہل کتاب اور ان کی روش پر چلنے والے مسلمانوں کو ان عذابوں سے ڈر کر توبہ کرنی چاہیے۔