يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا
اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہو نماز کے قریب نہ جاؤ (١) جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو اور جنابت کی حالت میں جب تک کہ غسل نہ کرلو (٢) ہاں اگر راہ چلتے گزر جانے والے ہوں تو اور بات ہے (٣) اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اپنے منہ اور اپنے ہاتھ مل لو (٤) بیشک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، بخشنے والا ہے۔
1۔ لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى:شراب کی مذمت اور قباحت کے سلسلے میں سب سے پہلے سورۂ بقرہ کی آیت (۲۱۹) نازل ہوئی، جس میں شراب اور جوئے کے گناہ کو ان کے نفع سے بڑا قرار دیا، اس پر بہت سے مسلمانوں نے شراب چھوڑ دی، تاہم بعض بدستور پیتے رہے کہ ہم اس سے نفع اٹھاتے ہیں۔ علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ہمارے لیے کھانا پکایا، پھر ہمیں بلایا اور ہمیں شراب پلائی، شراب نے ہمیں مدہوش کر دیا، اتنے میں نماز کا وقت آ گیا اور انھوں نے مجھے امام بنا دیا، میں نے پڑھا : ”قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُوْنَ لاَ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ، وَ نَحْنُ نَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ“ ’’کہہ دے اے کافرو ! میں اس کی عبادت نہیں کرتا جس کی تم کرتے ہو اور ہم اس کی عبادت کرتے ہیں جس کی تم عبادت کرتے ہو۔‘‘ (ظاہر ہے اس سے آیت کے معنی کچھ سے کچھ ہو گئے) تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ﴿ لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى ﴾ [ترمذی، تفسیر القرآن، باب و من سورۃ النساء : ۳۰۲۶ و قال حسن صحیح غریب ] اس پر لوگوں نے نماز کے اوقات میں شراب ترک کر دی، یہاں تک کہ سورۂ مائدہ کی آیات (۹۰، ۹۱) نازل ہوئیں، جس سے شراب قطعی طور پر حرام کر دی گئی۔ ( ابن کثیر) بعض علماء نے یہاں ”وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى“ (جمع سکران) سے نیند کا غلبہ مراد لیا ہے اور اس کے مناسب صحیح بخاری کی وہ حدیث ذکر کی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند کی حالت میں نماز سے منع فرمایا کہ معلوم نہیں کیا پڑھے اور کیا نہ پڑھے، مگر صحیح یہ ہے کہ اس سے شراب کا نشہ مراد ہے اور یہی جمہور صحابہ و تابعین کا قول ہے، نیز تمام مفسرین اس پر متفق ہیں کہ یہ آیت شراب نوشی سے متعلق نازل ہوئی۔ 2۔ وَ لَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ: بعض مفسرین نے اس سے مراد سفر لیا ہے مگر سفر کا ذکر ”اَوْ عَلٰى سَفَرٍ“ آگے آ رہا ہے اس تفسیر کی بنا پر سفر کے ذکر میں تکرار لازم آتا ہے، اس لیے اکثر سلف نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ ”الصَّلٰوةَ“ سے مراد نماز کی جگہ یعنی مسجد ہے، مطلب یہ ہے کہ جنابت کی حالت میں ’’الصَّلٰوةَ ‘‘ یعنی نماز کی جگہوں (مسجدوں) میں نہ جاؤ۔ ہاں، اگر مسجد سے گزرنا پڑے تو مجبوری کی صورت میں گزر سکتے ہو ( ٹھہر نہیں سکتے)۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے اسے راجح قرار دیا ہے، پس یہاں مضاف محذوف ہے، یعنی ”لَا تَقْرَبُوْا مَوَاضِعَ الصَّلاَةِ“ (طبری) اور یہی جمہور علماء کا مسلک ہے کہ جنبی یا حائضہ کے لیے مسجد سے گزرنا جائز ہے، ٹھہرنا جائز نہیں، کیونکہ بہت سے صحابہ کے گھروں کے دروازے مسجد کی طرف کھلتے تھے، ان کے لیے غسل کر کے گزرنا مشکل تھا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ مگر آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دریچے کے سوا مسجد میں کھلنے والے تمام دریچے بند کروا دیے۔ [ بخاری، الصلاۃ، باب الخوخۃ: ۴۶۷، عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ] بعض لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ کا دروازہ کھلا رکھنے کی روایت بھی بیان کی ہے، مگر اہل علم نے اسے ضعیف کہا ہے۔ (ابن کثیر) خلاصہ یہ کہ مراد اس سے یہ ہے کہ جنبی مسجد سے گزر سکتا ہے، ٹھہر نہیں سکتا۔ گویا آیت کے دو حصے ہیں، پہلے حصے : ﴿ لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى﴾ اس میں ”الصَّلٰوةَ“ سے مراد نماز ہی ہے کہ نشہ کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ اور دوسرے حصے : ﴿ وَ لَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا ﴾ میں ”لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ“ سے مراد نماز کی جگہ ہے، یعنی اس جنبی ہونے کی حالت میں مسجد کے قریب نہ جاؤ، الا یہ کہ راستہ عبور کر کے گزر جانے والے ہو۔ (طنطاوی) 3۔ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ: سفر سے مراد مطلق سفر ہے، اکثر علماء کے نزدیک تیمم کے جواز کے لیے اتنے سفر کی کوئی شرط نہیں جس میں نماز قصر پڑھی جا سکتی ہے۔ ’’ یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو‘‘ کے تحت ہر وہ چیز آ جاتی ہے جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ عورتوں کو چھونے یا مباشرت سے مراد (راجح مسلک کی بنا پر) جماع ہے، ورنہ صرف چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا، چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ میں گھر میں لیٹی ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نفل نماز پڑھتے تو سجدہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے میرے پاؤں سامنے سے ہٹا دیتے۔ [ بخاری، الصلوۃ، باب التطوع خلف المرأۃ : ۵۱۳، ۵۱۴۔ مسلم : ۴۸۶ ] ”اَوْ عَلٰى سَفَرٍ“ کا مقصد ہے کہ سفر میں پینے کے لیے تو پانی ہے مگر وضو یا غسل کے لیے نہیں۔ بیماری کا مطلب یہ ہے کہ پانی کے استعمال سے بیمار ہونے یا بیماری بڑھنے کا خطرہ ہے۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو ایک سرد رات میں احتلام ہوگیا، انھوں نے تیمم کر لیا اور یہ آیت پڑھی : ﴿ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا ﴾ [النساء : ۲۹ ] ’’ اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر ہمیشہ سے بے حد مہربان ہے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے کوئی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی۔ [ بخاری، التیمم، باب إذا خاف الجنب علی نفسہ المرض…، قبل ح : ۳۴۵، تعلیقاً ] 4۔ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً: پانی نہ پانے میں یہ صورت بھی شامل ہے کہ پانی میسر ہی نہ ہو اور یہ بھی کہ بیماری یا عذر کی بنا پر پانی استعمال نہ کیا جا سکے۔ 5۔ فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا:تیمم کا معنی ہے قصد کرنا۔ ”صَعِيْدًا طَيِّبًا“ سے مراد پاک مٹی ہے، خواہ کپڑے، کاغذ یا کسی جگہ کی گرد سے حاصل ہو جائے۔ اس کی تائید صحیح مسلم کی اس حدیث سے ہوتی ہے کہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمیں تین باتوں میں لوگوں پر فضیلت دی گئی ہے، جن میں سے ایک یہ ہے: (( وَ جُعِلَتْ تُرْبَتُهَا لَنَا طَهُوْرًا إِذَا لَمْ نَجِدِ الْمَاءَ)) ’’جب ہمیں پانی نہ ملے تو زمین کی مٹی ہمارے لیے پاک کرنے والی بنا دی گئی ہے۔‘‘ [ مسلم، المساجد، باب المساجد ومواضع الصلٰوۃ : ۵۲۲ ] تیمم خواہ وضو کے لیے ہو یا غسل کے لیے، دونوں کا ایک ہی طریقہ ہے، صرف نیت مختلف ہو گی۔ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک جہادی سفر میں انھیں احتلام ہو گیا تو انھوں نے زمین پر لوٹ پوٹ ہو کر نماز پڑھ لی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ تمھیں اتنا ہی کافی تھا۔‘‘ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارا، پھر ان میں پھونک مار کر انھیں اپنے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں پر مل لیا۔ [ بخاری، التیمم ، باب المتیمم ھل ینفخ فیھما ؟ : ۳۳۸ ] اس سے معلوم ہوا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا تیمم کا طریقہ یہی ہے کہ صرف ایک دفعہ زمین پر ہاتھ مار کر اس میں پھونک مار کر چہرے اور ہتھیلیوں پر مل لیا جائے۔ بعض احادیث میں دو دفعہ زمین پر ہاتھ مارنے کا اور کہنیوں تک ملنے کا ذکر ہے، مگر وہ احادیث یا تو صحابہ کا اجتہاد ہیں یا کمزور ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ترین حدیث وہی ہے جو عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے آئی ہے۔