الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا
مرد عورت پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے مال خرچ کئے ہیں (١) پس نیک فرمانبردار عورتیں خاوند کی عدم موجودگی میں یہ حفاظت الٰہی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بد دماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو پھر اگر وہ تابعداری کریں تو ان پر راستہ تلاش نہ کرو (٢) بیشک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے۔
1۔ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ:شریعت نے گھر کے بندوبست اور انتظام کے لیے مرد کو گھر کا قوام (نگران، ذمہ دار) قرار دیا ہے اور عورت کو اس کے ماتحت رکھا ہے۔ قرآن نے اس کی دو وجہیں بیان کی ہیں، ایک تو یہ کہ مرد کو طبعی طور پر امتیاز حاصل ہے کہ وہ منتظم بنے اور دوسرے یہ کہ گھر کے سارے اخراجات بیوی کے نفقہ سمیت مرد کے ذمے ہیں۔ اس بنا پر گھر کا نگران بننے کا حق مرد کو ہے عورت کو نہیں۔ یہی حال حکومتی امور کا ہے کہ مسلمانوں کا خلیفہ یا امیر عورت نہیں ہو سکتی، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمُ امْرَأَةً )) ’’وہ قوم ہر گز کامیاب نہیں ہو گی جس نے اپنا حاکم عورت کو بنا لیا۔‘‘ [ بخاری، المغازی، باب کتاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم إلی کسریٰ و قیصر : ۴۴۲۵ ] 2۔ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ:اس آیت کی تشریح وہ حدیث کرتی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’ بہترین بیوی وہ ہے جسے اگر تم دیکھو تو تمھیں خوش کرے، اگر تم اسے کسی بات کا حکم دو تو وہ تمہاری اطاعت کرے اور جب تم گھر میں نہ ہو تو تمہارے پیچھے وہ تمہارے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے۔‘‘ پھر رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی :﴿ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ ﴾ [ مسند أبی داؤد الطیالسی : ۲۴۴۴۔ ابن جریر :4؍62، و صححہ صاحب ہدایۃ المستنیر] 3۔ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ: یعنی چونکہ اللہ تعالیٰ نے خاوندوں کو عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کا حکم دے کر ان کے حقوق محفوظ کر دیے ہیں، اس کے بدلے میں وہ خاوندوں کی غیر موجودگی میں ان کے مال اور عزت و آبرو کی حفاظت رکھتی ہیں۔ [دیکھیے نسائی، النکاح، باب أی النساء خیر:۳۲۳۳] یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ان کے مال و عزت اور حقوق کی حفاظت کرتی ہیں اور خیانت سے کام نہیں لیتیں۔ (شوکانی) 4۔ وَ الّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ:نشوز کا لفظی معنی ’’اونچا ہونا، چڑھائی کرناہے‘‘ اور عورت کے نشوز کا معنی ’’خاوند سے بغض رکھنا اور اس کی اطاعت سے اپنے آپ کو اونچا سمجھنا ہے۔‘‘( مفردات) عورت پر مرد کا بہت بڑا حق ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ (اللہ کے سوا) کسی دوسرے کو سجدہ کرے تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔‘‘ [ترمذی، الرضاع ، باب ما جاء فی حق....: ۱۱۵۹، عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ۔ أبو داؤد : ۲۱۴۰ ] عورت نافرمانی کا رویہ اختیار کرے تو خاوند کو حالات کے مطابق تین چیزوں کا اختیار دیا گیا ہے، تینوں یکے بعد دیگرے اور اکٹھی بھی ہو سکتی ہیں، نصیحت کرنا، گھر میں رہ کر بستر الگ کر لینا اور انھیں مارنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض ناگزیر حالات میں مارنے کی اجازت دی، مگر فرمایا : ’’چہرے پر مت مارو، اسے بد صورت نہ کہو اور اسے مت چھوڑو مگر گھر میں۔‘‘ [ أبو داؤد، النکاح، باب فی حق المرأۃ علی زوجھا : ۲۱۴۲، عن حکیم بن معاویۃ رضی اللّٰہ عنہ ] اسی طرح ایسی مار سے بھی منع کیا جس سے سخت چوٹ آئے۔ [مسلم، الحج، باب حجۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ۱۲۱۸، عن جابر رضی اللّٰہ عنہ ] اور فرمایا : ’’تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو اس طرح نہ مارے جس طرح غلام کو مارتے ہیں، پھر دن کے آخر حصے میں اس سے جماع کرے گا۔‘‘ [ بخاری، النکاح، باب ما یکرہ من ضرب النساء :۵۲۰۴ ] 5۔ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا : یعنی اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو ان پر زیادتی کا کوئی راستہ تلاش نہ کرو، مثلاً طلاق دینا، تنگ کر کے خلع پر مجبور کرنا وغیرہ۔