يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے نبی! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لئے حلال کردیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں؟ (١) (کیا) آپ اپنی بیویوں کی رضامندی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
1۔ يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ : وہ چیز کیا تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ پر حرام کی اور یہ آیات نازل ہوئیں ؟ اس کے متعلق ایک تو وہ مشہور واقعہ ہے جو صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہ میں نقل ہوا ہے، عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں : (( كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْرَبُ عَسَلاً عِنْدَ زَيْنَبَ ابْنَةِ جَحْشٍ وَ يَمْكُثُ عِنْدَهَا فَوَاطَأْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ عَنْ أَيَّتُنَا دَخَلَ عَلَيْهَا فَلْتَقُلْ لَّهُ أَكَلْتَ مَغَافِيْرَ، إِنِّيْ أَجِدُ مِنْكَ رِيْحَ مَغَافِيْرَ، قَالَ لاَ وَلٰكِنِّيْ كُنْتُ أَشْرَبُ عَسَلاً عِنْدَ زَيْنَبَ ابْنَةِ جَحْشٍ فَلَنْ أَعُوْدَ لَهُ وَ قَدْ حَلَفْتُ لاَ تُخْبِرِيْ بِذٰلِكَ أَحَدًا )) [ بخاري، التفسیر، باب : ﴿یا أیھا النبي لم تحرم....﴾ : ۴۹۱۲۔ مسلم : ۱۴۷۴ ] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زینب بنت جحش رضی اللہ عنھا کے پاس شہد پیا کرتے تھے اور ان کے پاس ٹھہر جاتے تھے، تو میں نے اور حفصہ نے آپس میں اس بات پر اتفاق کر لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے جس کے پاس بھی آئیں وہ آپ سے یہ کہے کہ آپ نے مغافیر کھائی ہے، کیونکہ مجھے آپ سے مغافیر کی بو آرہی ہے۔ (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے پر یہ بات کہی گئی تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’نہیں، لیکن میں زینب بنت جحش کے پاس شہد پیا کرتا تھا، دوبارہ کبھی نہیں پیوں گا اور میں نے (اس بات کی) قسم کھا لی ہے، تم یہ بات کسی کو نہ بتانا۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’كِتَابُ الطَّلاَقِ‘‘ میں بھی یہ حدیث نقل فرمائی ہے، اس میں یہ الفاظ بھی ہیں : (( فَنَزَلَتْ : ﴿ يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ ﴾ )) [ بخاري، الطلاق، باب : ﴿لم تحرم ما أحل اللّٰہ لک ﴾ : ۵۲۶۷ ] ’’یعنی اس واقعہ پر یہ آیت اتری : ﴿ يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ ﴾ ’’اے نبی! تو کیوں حرام کرتا ہے جو اللہ نے تیرے لیے حلال کیا ہے؟‘‘ واضح رہے کہ مغافیر ایک بدبو دار میٹھی گوند ہوتی ہے جو عرفط نامی پودے پر پیدا ہوتی ہے۔ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنھما کا مطلب یہ تھا کہ آپ کو بدبو سے بہت نفرت ہے، آپ یہ سوچ کر شہد پینا چھوڑ دیں گے کہ مغافیر کی بو شہد ہی سے آ رہی ہوگی، کیونکہ ممکن ہے شہد کی مکھیوں نے اس کے پودے عرفط کا رس چوس کر شہد بنایا ہو۔ دوسرا وہ واقعہ ہے جو امام نسائی نے انس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے : (( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَهُ أَمَةٌ يَطَؤُهَا فَلَمْ تَزَلْ بِهِ عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ حَتّٰی حَرَّمَهَا عَلٰی نَفْسِهِ فَأَنْزَلَ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ : ﴿ يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ ﴾ إِلٰی آخِرِ الْآيَةِ)) [ نسائي، عشرۃ النساء، باب الغیرۃ : ۳۴۱۱ ] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لونڈی تھی جس سے آپ صحبت کیا کرتے تھے، تو عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنھما مسلسل آپ سے اصرار کرتی رہیں، حتیٰ کہ آپ نے اسے اپنے آپ پر حرام کر لیا، تو اللہ عزوجل نے یہ مکمل آیت نازل فرمائی : ﴿ يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ ﴾ ’’اے نبی! تو کیوں حرام کرتا ہے جو اللہ نے تیرے لیے حلال کیا ہے؟‘‘ علامہ البانی نے فرمایا : ’’إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ‘‘ اور حافظ ابن حجر نے ’’كِتَابُ الطَّلاَقِ، بَابُ : ﴿ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰهُ ﴾ ‘‘ کی شرح کرتے ہوئے اس حدیث کی سند کو صحیح کہا ہے۔ یہ لونڈی ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنھا تھیں، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کی ماں تھیں۔ ضیاء مقدسی نے ’’ اَلْأَحَادِيْثُ الْمُخْتَارَةُ ‘‘ میں روایت کی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا : ((قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَفْصَةَ لاَ تُحَدِّثِيْ أَحَدًا وَّ إِنَّ أُمَّ إِبْرَاهِيْمَ عَلَيَّ حَرَامٌ فَقَالَتْ أَتُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ ؟ قَالَ فَوَ اللّٰهِ ! لاَ أَقْرَبُهَا، قَالَ فَلَمْ يَقْرَبْهَا، حَتّٰی أَخْبَرَتْ عَائِشَةَ فَأَنْزَلَ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ : ﴿ قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ اَيْمَانِكُمْ ﴾ )) [الأحادیث المختارۃ : ۱۸۹] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ رضی اللہ عنھا سے کہا کہ تم کسی کو نہ بتانا یہ کہ ام ابراہیم مجھ پر حرام ہے۔‘‘ انھوں نے کہا : ’’کیا آپ وہ چیز حرام کر رہے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کی قسم! میں اس کے قریب نہیں جاؤں گا۔‘‘ تو آپ اس کے قریب نہیں گئے، حتیٰ کہ اس (حفصہ رضی اللہ عنھا ) نے یہ بات عائشہ( رضی اللہ عنھا ) کو بتا دی تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرما دی : ﴿ قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ اَيْمَانِكُمْ ﴾ ’’بے شک اللہ نے تمھارے لیے تمھاری قسموں کا کفارہ مقرر کر دیا ہے۔‘‘ ضیاء مقدسی نے حدیث کے آخر میں فرمایا : ’’إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ‘‘ اور ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ہیثم بن کلیب کی مسند کے حوالے سے اسے نقل کر کے فرمایا، یہ اسناد صحیح ہے اور کتب ستہ میں سے کسی نے اسے روایت نہیں کیا اور ضیاء مقدسی نے اپنی ’’ اَلْمُسْتَخْرَجُ ‘‘ میں اس کا انتخاب کیا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ اور واقعات بھی بیان کیے گئے ہیں مگر ان میں سے کسی کی سند صحیح نہیں۔ ان دونوں واقعات میں سے شہد والے واقعہ کی سند زیادہ صحیح ہے، کیونکہ وہ صحیحین میں ہے، اس لیے بعض مفسرین نے صرف اسی کو ان آیات کا سبب نزول قرار دیا ہے۔ چنانچہ قرطبی کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ ان تمام اقوال میں سب سے صحیح پہلا ہے اور صحیح یہ ہے کہ آپ نے حرام شہد کو کیا تھا جو آپ زینب رضی اللہ عنھا کے ہاں پیا کرتے تھے اور ابن کثیر نے اس کے متعلق بہت سی روایات نقل کرنے کے بعد فرمایا : ’’صحیح یہ ہے کہ یہ معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہد کو حرام کرنے کی وجہ سے ہوا تھا۔‘‘ اور آلوسی نے فرمایا : ’’نووی نے مسلم کی شرح میں کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ یہ آیت شہد کے واقعہ کے بارے میں ہے نہ کہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنھا کے واقعہ کے بارے میں، جو صحیحین کے علاوہ کتابوں میں آیا ہے اور ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنھا کا واقعہ کسی صحیح سند کے ساتھ نہیں آیا۔‘‘ مگر جیسا کہ اوپر گزرا کہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنھا کے قصے کی سند کو ضیاء مقدسی، ابن کثیر، ابن حجر اور البانی رحمھم اللہ نے صحیح کہا ہے، شہد والے واقعہ سے اس کا کوئی تعارض بھی نہیں اور ایک آیت کا سبب نزول کئی واقعات بھی ہو سکتے ہیں، اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ یہ دونوں واقعات ان آیات کا سبب نزول ہیں، شوکانی نے بھی یہی فیصلہ فرمایا ہے۔ 2۔ احادیث سے ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہد کو امت کے لیے حرام قرار نہیں دیا تھا، بلکہ صرف خود اسے نہ پینے کی قسم کھائی تھی۔ اسی طرح امت کے لیے ان کی لونڈیوں کو حرام قرار نہیں دیا، بلکہ صرف اپنی ایک لونڈی کو اپنے آپ پر حرام قرار دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس پر بھی ناراضی کا اظہار فرمایا، کیونکہ آپ کے ایسا کرنے سے آپ کا ان نعمتوں سے محروم ہونا لازم آتا تھا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال کی تھیں۔ اس کے علاوہ اندیشہ تھا کہ آپ کو دیکھ کر امت کے لوگ، جن کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسوۂ حسنہ و کاملہ ہیں، شہد کے قریب نہیں جائیں گے اور یہ دونوں باتیں اللہ تعالیٰ کو گوارا نہیں تھیں۔ 3۔ اس سے معلوم ہوا کہ صوفی حضرات جو ترک حیوانات جلالی و جمالی کرتے ہیں، یعنی اپنے چلوں اور وظیفوں کے درمیان کوئی جاندار چیز یا اس سے نکلنے والی چیز مثلاً گوشت، مچھلی، انڈا، دودھ، گھی اور شہد وغیرہ نہیں کھاتے، ان کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کی اس تنبیہ کے خلاف ہے۔ حقیقت میں یہ عمل ہندو جوگیوں یا نصرانی راہبوں سے لیا گیا ہے، اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ 4۔ ’’ يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ خطاب کا مقصد یہ ہے کہ آپ کا کام وحی الٰہی پر چلنا اور اسے آگے پہنچانا ہے، آپ کو اپنی مرضی سے کچھ بھی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ 5۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قول، فعل اور تقریر پر وحی الٰہی کی مہر ہے اور وہ سب کا سب دین ہے، کیونکہ اگر آپ کا کوئی اجتہاد درست نہیں ہوتا تھا تو اللہ تعالیٰ فوراً اس کی اصلاح فرما دیتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معصوم ہونے کا یہی مطلب ہے، انبیاء کے علاوہ کسی کو یہ چیز حاصل نہیں کہ وحی کے ذریعے سے ان کی خطا کی اصلاح ہوتی ہو۔ اس لیے کسی صحابی یا امام یا پیر فقیر کی بات امت کے لیے حجت نہیں، کیونکہ وہ درست بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔ 6۔ تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ: اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور امت کو تعلیم ہے کہ بیویوں کو خوش رکھنا اگرچہ اچھی بات ہے، مگر اس وقت تک جب وہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر قائم رہ کر ہو، رب تعالیٰ کو ناراض کر کے انھیں راضی کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ 7۔ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ: یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر خاص انعام و فضل ہے کہ عتاب کرتے ہوئے ساتھ ہی معافی اور مغفرت و رحمت کی خوش خبری بھی سنا دی، جیسا کہ فرمایا : ﴿ عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ﴾ [ التوبۃ : ۴۳ ] ’’اللہ نے تجھے معاف کر دیا، تو نے ان (منافقین) کو پیچھے رہنے کی اجازت کیوں دی؟‘‘