بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے (سورۃ الطلاق۔ سورۃ نمبر ٦٥۔ تعداد آیات ١٢)
سورۂ تغابن میں بیویوں کے ساتھ رہن سہن میں کشادہ دلی اور عفو و درگزر کے ساتھ مدارات اور گزارا کرنے کی تعلیم دی گئی ہے، لیکن اگر میاں بیوی کا اختلاف حد سے بڑھ جائے اور گزارے کی کوئی صورت نہ رہے تو اللہ تعالیٰ نے طلاق کی بھی اجازت دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح زنا کو حرام قرار دینا اور نکاح کا حکم دینا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے، کیونکہ اس سے نسب اور نسل کی حفاظت ہوتی ہے اور معاشرے میں فسق و فجور اور قتل و غارت کے بجائے پاکیزگی اور امن و امان کا دور دورہ ہوتا ہے، اسی طرح زوجین میں موافقت نہ رہے تو مرد کو طلاق کی اور عورت کو خلع کی اجازت بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت ہے، جس سے وہ ایسی زندگی سے نکل آتے ہیں جو ہر لمحہ ان کے لیے شدید اذیت کا باعث تھی اور دونوں کو نیا نکاح کر کے آئندہ کے لیے خوشگوار زندگی گزارنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے سے جدا ہونے والے مرد اور عورت میں سے ہر ایک کو اپنی وسعت کے ساتھ غنی کر دینے کا وعدہ فرمایا ہے اور اسے اپنی وسعت و حکمت کا ایک مظہر قرار دیا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ اِنْ يَّتَفَرَّقَا يُغْنِ اللّٰهُ كُلًّا مِّنْ سَعَتِهٖ وَ كَانَ اللّٰهُ وَاسِعًا حَكِيْمًا﴾ [ النساء : ۱۳۰ ] ’’اور اگر وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تو اللہ ہر ایک کو اپنی وسعت سے غنی کر دے گا اور اللہ ہمیشہ سے وسعت والا، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ جن اقوام نے طلاق پر پابندی لگائی اور اسے ناجائز قرار دیا ہے یا اس پر نامناسب پابندیاں لگائی ہیں، مثلاً یہ کہ طلاق دینے والا مرد ساری عمر اپنی مطلقہ کے نان و نفقہ کا ذمہ دار ہوگا وغیرہ، انھوں نے ایک دوسرے سے موافقت نہ رکھنے والے میاں بیوی پر شدید ظلم کیا ہے اور ساری عمر ان پر دل کی اس خوشی کا دروازہ بند کر دیا ہے جو میاں بیوی کو نکاح سے حاصل ہوتی ہے۔ کفار کے اس اقدام کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے نکاح کرنا ہی چھوڑ دیا، کیونکہ اس صورت میں وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکیں گے، یا جدا ہوئے تو انھیں ناقابل برداشت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب ان میں کم ہی کوئی نکاح کرتا ہے، مردوں اور عورتوں کی اکثریت نکاح کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ رہ کر حرام اولاد کو جنم دے رہی ہے اور جس کا دوسرے سے دل بھر جاتا ہے وہ اسے چھوڑ کر آگے روانہ ہو جاتا ہے۔ طلاق صرف ایک دوسرے سے جدا ہونے کا ذریعہ نہیں بلکہ میاں بیوی کے بگڑے ہوئے معاملات کو درست کرنے کا آخری ذریعہ بھی ہے، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کے مقرر کر دہ طریقے کے مطابق طلاق دی جائے تو عدت کی صورت میں مرد کے پاس رجوع کا اور عورت کے پاس خاوند کو منا لینے کا موقع موجود ہوتا ہے اور تین حیض یا وضع حمل تک ایک گھر میں اکٹھے رہنے کی وجہ سے امید ہوتی ہے کہ جدائی کا باعث بننے والی کشیدگی ختم ہو جائے اور وہ دونوں آپس میں صلح کر لیں۔ سورۂ طلاق کی پہلی آیت ’’ لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا ‘‘ میں یہی بات بیان ہوئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح ہر کام میں ہمارے لیے نمونہ ہیں نکاح و طلاق میں بھی نمونہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح بھی کیے ہیں اور بعض کو طلاق بھی دی ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنت الجون کو ’’ أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْكَ ‘‘ کہنے پر طلاق دے دی۔ [ یکھیے بخاري، الطلاق، باب من طلق وھل یواجہ الرجل امرأتہ بالطلاق؟ : ۵۲۵۴ ] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دے کر رجوع بھی کیا ہے، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنھما عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں : (( أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَلَّقَ حَفْصَةَ ثُمَّ رَاجَعَهَا )) [ أبو داؤد، الطلاق، باب في المراجعۃ : ۲۲۸۳، وقال الألباني صحیح ] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ( رضی اللہ عنھا ) کو طلاق دے دی، پھر ان سے رجوع کر لیا۔‘‘