هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنفِقُوا عَلَىٰ مَنْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّىٰ يَنفَضُّوا ۗ وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ
یہی وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ کے پاس ہیں ان پر کچھ خرچ نہ کرو یہاں تک کہ وہ ادھر ادھر ہوجائیں اور آسمان و زمین کے خزانے اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں (١) لیکن یہ منافق بے سمجھ ہیں (٢)۔
1۔ هُمُ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰى مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ....: اس آیت میں اور اس سے اگلی آیت میں ان منافقین کے فسق کے نمونے کے طور پر ان کے کچھ گستاخانہ جملے ذکر فرمائے ہیں، جن سے ان کی اسلام اور مسلمانوں سے شدید نفرت اور دلی بغض کا اظہار ہو رہا ہے۔ گویا بتایا جا رہا ہے کہ یہ ہے ان کا بدترین فسق جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت نہیں دیتا اور جس کی وجہ سے ان کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استغفار کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : (( خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيْ سَفَرٍ أَصَابَ النَّاسَ فِيْهِ شِدَّةٌ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ لِأَصْحَابِهِ لاَ تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ حَتّٰی يَنْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِهِ وَقَالَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِيْنَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ فَأَرْسَلَ إِلٰی عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ أُبَيٍّ فَسَأَلَهُ، فَاجْتَهَدَ يَمِيْنَهُ مَا فَعَلَ، قَالُوْا كَذَبَ زَيْدٌ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَقَعَ فِيْ نَفْسِيْ مِمَّا قَالُوْا شِدَّةٌ، حَتّٰی أَنْزَلَ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ تَصْدِيْقِيْ فِيْ : ﴿ اِذَا جَآءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ﴾ فَدَعَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَسْتَغْفِرَ لَهُمْ فَلَوَّوْا رُؤُوْسَهُمْ وَقَوْلُهُ : ﴿ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ﴾ قَالَ كَانُوْا رِجَالاً أَجْمَلَ شَيْءٍ )) [ بخاري، التفسیر، باب : ﴿ و إذا رأیتہم تعجبک أجسامہم....﴾ : ۴۹۰۳ ] ’’ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اس سفر میں لوگوں کو بہت سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا تو عبداللہ بن اُبی نے اپنے ساتھیوں سے کہا : ’’ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو اللہ کے رسول کے پاس ہیں، یہاں تک کہ وہ اس کے گرد سے منتشر ہو جائیں۔‘‘ اور اس نے کہا : ’’اگر ہم مدینہ واپس پہنچے تو جو زیادہ عزت والا ہے وہ ذلیل تر کو اس میں سے ضرور نکال باہر کرے گا۔‘‘ یہ سن کر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو یہ بات بتائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن اُبی کی طرف پیغام بھیج کر اسے بلایا اور اس سے یہ بات پوچھی تو اس نے بہت پکی قسم کھا کر کہا کہ اس نے ایسا نہیں کیا۔ لوگوں نے کہا : ’’زید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹ کہا ہے۔‘‘ تو میرے دل میں ان کی بات سے بہت تکلیف پہنچی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ’’ اِذَا جَآءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ ‘‘ میں میری تصدیق نازل فرما دی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بلایا، تاکہ ان کے لیے استغفار کریں تو انھوں نے اپنے سر پھیر لیے۔‘‘ اور (زید رضی اللہ عنہ نے) اللہ کے فرمان ’’ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ‘‘ کے متعلق فرمایا : ’’وہ بہت خوبصورت آدمی تھے۔‘‘ 2۔ وَ لِلّٰهِ خَزَآىِٕنُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ....: ’’ لِلّٰهِ ‘‘ کو پہلے لانے کا مطلب یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین کے خزانوں کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے، اور کوئی نہیں۔ منافقین نے خود تو کیا خرچ کرنا تھا، وہ تو پرلے درجے کے حریص اور بخیل تھے، وہ مخلص مسلمانوں کو بھی مہاجرین پر خرچ کرنے سے روک رہے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ اگر وہ ان پر خرچ نہیں کریں گے تو وہ بھوک سے مر جائیں گے۔ حالانکہ سارے خزانوں کا مالک تو اللہ تعالیٰ ہے، وہ جس طرح چاہے انھیں رزق دے سکتا ہے، مگر یہ منافقین کی بے سمجھی ہے کہ وہ مہاجرین کا رزق اپنے ہاتھ میں سمجھ رہے ہیں، اس لیے یہاں ’’ لَا يَفْقَهُوْنَ ‘‘ کا لفظ فرمایا کہ ایسا سمجھنے والا بے سمجھ ہے۔