فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
پھر جب نماز ہوچکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو (١) اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا کرو تاکہ تم فلاح پالو۔
1۔ فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ....: یہاں ایک سوال ہے کہ آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ جمعہ کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو، تو کیا نماز کے بعد مسجد سے نکلنا ضروری ہے اور کیا کاروبار بھی ضروری ہے یا گھر میں آرام بھی کیا جا سکتا ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اگرچہ اصل یہی ہے کہ جس کام کا حکم دیا جائے وہ فرض ہوتا ہے، مگر قرینہ موجود ہو تو امر استحباب کے لیے بھی ہو تا ہے اور بیانِ جواز کے لیے بھی۔ یہاں اذان کے بعد بیع سے منع فرمایا تھا، اب اس ممانعت کی حد بیان فرما دی کہ یہ ممانعت نماز پوری ہونے تک ہے، اس کے بعدبیع کی اجازت ہے اور تمھیں اختیار ہے کہ مسجد سے نکل کر کاروبار میں مصروف ہو جاؤ، لیکن اگر کوئی مسجد میں رہے یا گھر چلا جائے، کاروبار نہ کرے تو مضائقہ نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ اللہ نے احرام کی حالت میں شکار سے منع فرمایا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ﴾ [ المائدۃ : ۹۵ ] ’’شکار کو مت قتل کرو، اس حال میں کہ تم احرام والے ہو۔‘‘ پھر فرمایا : ﴿ وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا﴾ [ المائدۃ : ۲ ] ’’اور جب تم احرام کھول دو تو شکار کرو۔‘‘یہاں شکار کا حکم دینے کا یہ مطلب نہیں کہ احرام کھولنے والے شخص پر شکار کرنا فرض ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ احرام کھولنے کے بعد شکار کی اجازت ہے۔ 2۔ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ : اللہ کے فضل سے مراد یہاں روزی تلاش کرنا ہے ، یعنی جس طرح یہود کے لیے یوم السبت (ہفتہ) کو سارا دن شکار منع تھا تم پر ایسی کوئی پابندی نہیں، صرف اذان سے لے کر نماز سے فراغت تک خطبہ اور نماز میں حاضری کے سوا ہر کام منع ہے، اس کے بعد جس حلال طریقے سے روزی کما سکتے ہو کماؤ۔ 3۔ وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ : یعنی روزی کی تلاش میں مصروفیت کے دوران بھی اللہ کی یاد سے غافل نہ ہو جاؤ، بلکہ اسے بہت زیادہ یاد کرتے رہو۔ اللہ کی یاد دل سے بھی ہوتی ہے، زبان سے بھی اور ہر کام اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتے ہوئے اس کے حکم کے مطابق ادا کرنے کے ساتھ بھی۔ مزید دیکھیے سورۂ احزاب (۴۱ ، ۴۲) کی تفسیر۔