يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو (١) یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔
1۔ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوةِ....: اہلِ کتاب کی شقاوت اور امیین کی سعادت میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہود و نصاریٰ پر جمعہ کا دن فرض کیا گیا تو انھوں نے اسے قبول کرنے میں اختلاف کیا۔ یہود نے اپنے لیے ہفتے کا د ن اور نصاریٰ نے اتوار کا دن عبادت کے لیے مقرر کر لیا، جبکہ اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو جمعہ کے دن کی ہدایت عطا فرما دی، جس سے انھیں یہودو نصاریٰ دونوں پر سبقت حاصل ہو گئی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ نحل کی آیت ( ۱۲۴) : ﴿ اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَى الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ ﴾ کی تفسیر۔ 2۔ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا....: یہ آیت واضح دلیل ہے کہ جمعہ ان تمام لوگوں پر فرض ہے جو ایمان لا چکے ہیں، خواہ وہ شہر میں رہتے ہوں یا کسی بستی یا بادیہ میں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں باب قائم کیا ہے : ’’بَابُ الْجُمُعَةِ فِي الْقُرٰي وَالْمُدُنِ ‘‘ ( بستیوں اور شہروں میں جمعہ کا باب) اور اس میں ابن عباس رضی اللہ عنھما کی حدیث لائے ہیں، انھوں نے فرمایا : (( إِنَّ أَوَّلَ جُمُعَةٍ جُمِّعَتْ بَعْدَ جُمُعَةٍ فِيْ مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيْ مَسْجِدِ عَبْدِ الْقَيْسِ بِجُوَاثٰٰی مِنَ الْبَحْرَيْنِ )) [ بخاري، الجمعۃ، باب الجمعۃ في القری والمدن : ۸۹۲ ] ’’پہلا جمعہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں جمعہ کے بعد ادا کیا گیا عبد القیس قبیلے کی مسجد میں ہوا جو بحرین کے جواثی ٰمقام پر تھی۔‘‘ ابو داؤد میں ابن عباس رضی اللہ عنھما کی اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں : (( بِجُوَاثَاءَ قَرْيَةٍ مِّنْ قُرَی الْبَحْرَيْنِ )) [ أبو داؤد، الصلاۃ، باب الجمعۃ فی القرٰی : ۱۰۶۸ ] ’’جواثا بحرین کی بستیوں میں سے ایک بستی ہے۔‘‘ آیت میں جمعہ کے دن صلاۃ کی ندا پر اللہ کے ذکر کی طرف سعی کا حکم ہے اور باجماعت صلاۃ ادا کرنا صرف شہر میں نہیں بلکہ ہر بستی اور بادیہ میں فرض ہے۔ ¤ ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ فرما رہے تھے : (( مَا مِنْ ثَلاَثَةٍ فِيْ قَرْيَةٍ وَلاَ بَدْوٍ لاَ تُقَامُ فِيْهِمُ الصَّلاَةُ إِلاَّ قَدِ اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَعَلَيْكَ بِالْجَمَاعَةِ فَإِنَّمَا يَأْكُلُ الذِّئْبُ الْقَاصِيَةَ )) [أبوداؤد، الصلاۃ، باب في التشدید في ترک الجماعۃ : ۵۴۷ ] ’’کوئی تین آدمی نہیں جو کسی بستی یا بادیہ میں ہوں، جن میں نماز قائم نہ کی جاتی ہو مگر ان پر شیطان غالب آچکا ہوتا ہے۔ سو جماعت کو لازم پکڑو، کیونکہ بھیڑیا صرف اس بکری کو کھاتا ہے جو ریوڑ سے دور ہو۔‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ لوگوں نے عمر(بن خطاب رضی اللہ عنہ ) کو خط لکھ کر جمعہ کے متعلق سوال کیا، انھوں نے لکھا : (( جَمِّعُوْا حَيْثُمَا كُنْتُمْ )) [ مصنف ابن أبي شیبۃ :2؍101، ح : ۵۱۰۸ ] ’’تم جہا ں بھی ہو جمعہ ادا کرو۔ ‘‘ اس کی سند بخاری و مسلم کی شرط پر ہے۔ جن لوگوں نے جمعہ کے لیے شہر یا حاکم وغیرہ کی شرط لگائی ہے ان کے پاس قرآن و سنت کی کوئی دلیل نہیں اور مشہور روایت ’’ لَاجُمُعَةَ وَلَا تَشْرِيْقَ إِلَّا فِيْ مِصْرٍ جَامِعٍ‘‘ (جمعہ اور عید جامع شہر کے سوا نہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ یہ علی رضی اللہ عنہ کا قول مشہور ہے، جو عمر رضی اللہ عنہ کے صحیح سند کے ساتھ مروی قول کے خلاف ہے، جب صحابہ میں اختلاف ہو تو اصل کتاب و سنت کی طرف رجوع واجب ہے (دیکھیے نساء : ۵۹) اور کتاب و سنت کے مطابق تمام مسلمانوں پر ہر جگہ جمعہ فرض ہے، جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے، البتہ چند لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلٰی كُلِّ مُسْلِمٍ فِيْ جَمَاعَةٍ إِلاَّ أَرْبَعَةً عَبْدٌ مَمْلُوْكٌ أَوِ امْرَأَةٌ أَوْ صَبِيٌّ أَوْ مَرِيْضٌ )) [أبوداؤد، الصلاۃ، باب الجمعۃ للمملوک والمرأۃ : ۱۰۶۷، قال الألباني صحیح ] ’’جمعہ ہر مسلم پر جماعت کے ساتھ ادا کرنا واجب حق ہے سوائے چار کے، غلام جو کسی کی ملکیت میں ہو یا عورت یا بچہ یا مریض۔ ‘‘ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَيْسَ عَلٰی مُسَافِرٍ جُمُعَةٌ )) [ المعجم الأوسط للطبراني :1؍249، ح : ۸۱۸، وقال الألباني صحیح۔ دیکھیے الجامع الصغیر : ۵۴۰۵ ] ’’مسافر پر جمعہ نہیں ہے۔‘‘ جن لوگوں پر جمعہ فرض نہیں اگر وہ جمعہ کے لیے آئیں تو اجر کا باعث ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں بھی جمعہ کے لیے آتی تھیں، اس سے اجر کے علاوہ قرآن کی آیات سن کر انھیں یاد کرنے کا موقع ملتا ، قرآن و سنت سن کر علم میں اضافہ ہو تا اور نصیحت سن کر اصلاح ہوتی تھی۔ام ہشام بنت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : (( مَا أَخَذْتُ ﴿ قٓ وَ الْقُرْاٰنِ الْمَجِيْدِ﴾ إِلَّا عَنْ لِسَانِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهَا كُلَّ يَوْمِ جُمُعَةٍ عَلَی الْمِنْبَرِ إِذَا خَطَبَ النَّاسَ )) [ مسلم، الجمعۃ، باب تخفیف الصلاۃ و الخطبۃ : ۵۲ ؍۸۷۳ ] ’’میں نے سورۂ ﴿ قٓ وَ الْقُرْاٰنِ الْمَجِيْدِ﴾ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سن کر یاد کی، آپ اسے ہر جمعہ کے دن خطبہ دیتے ہوئے منبر پر پڑھا کرتے تھے۔‘‘ صحیح مسلم کے اسی باب کی ایک روایت (۸۷۳) میں ام ہشام رضی اللہ عنھا ہی کے الفاظ ہیں : (( مَا حَفِظْتُ ﴿ قٓ ﴾ إِلَّا مِنْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ بِهَا كُلَّ جُمُعَةٍ)) مطلب اوپر گزر چکا ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو منع فرمایا کہ وہ عورتوں کو اس بات سے روکیں کہ وہ مسجد میں آکر اجر اور قرآن و سنت کے علم سے اپنا حصہ حاصل کریں۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَا تَمْنَعُوا النِّسَاءَ حُظُوَظَهُنَّ مِنَ الْمَسَاجِدِ إِذَا اسْتَأْذَنُوْكُمْ )) [ مسلم، الصلاۃ، باب خروج النساء إلی المساجد....: ۱۴۰ ؍۴۴۲ ] ’’عورتوں کو مساجد میں سے ان کے حصے میں آنے والی چیزوں سے مت روکو، جب وہ تم سے اجازت مانگیں۔‘‘ جمعہ کے دن کی بدعات میں سے ایک بدعت ظہر احتیاطی ہے۔ کچھ لوگ جن کا خیال ہے کہ اسلامی حاکم کے بغیر جمعہ نہیں ہوتا اور دیہات میں بھی جمعہ نہیں ہوتا، شہروں اور گاؤں میں جمعہ کی دو رکعتیں پڑھانے کے بعد احتیاطاً ظہر کی چار رکعتیں بھی پڑھتے ہیں، یہ بد ترین بدعت ہے، کیونکہ اس کی بنیاد شک پر ہے جو کفار کا معمول ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ بَلْ هُمْ فِيْ شَكٍّ يَّلْعَبُوْنَ﴾ [ الدخان : ۹ ] ’’بلکہ وہ ایک شک میں کھیل رہے ہیں۔‘‘ 3۔ اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ : ’’ اَلصَّلاَةُ ‘‘ پر ’’الف لام‘‘ عہد کا ہے، مراد وہ نماز ہے جو جمعہ کے دن کے ساتھ خاص ہے اور سب جانتے ہیں کہ وہ نماز جمعہ ہے جو اس دن ظہر کی جگہ ادا کی جاتی ہے اور نداسے مراد اذان ہے۔ دیکھیے سورۂ مائدہ کی آیت (۵۸) کی تفسیر۔ آج کل عام طور پر جمعہ کے دن خطبے سے پہلے دو اذانیں کہی جاتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنھما کے زمانے میں یہ دو اذانیں نہیں بلکہ ایک ہی اذان تھی۔ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں : ((كَانَ النِّدَاءُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوَّلُهُ إِذَا جَلَسَ الإِْمَامُ عَلَی الْمِنْبَرِ عَلٰی عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ أَبِيْ بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ وَكَثُرَ النَّاسُ زَادَ النِّدَاءَ الثَّالِثَ عَلَی الزَّوْرَاءِ )) [ بخاري، الجمعۃ، باب الأذان یوم الجمعۃ : ۹۱۲ ] ’’جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنھما کے عہد میں یہی معمول تھا۔ پھر جب عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے اور لوگ زیادہ ہو گئے تو انھوں نے ( بازار میں ایک مقام) زَوراء پر تیسری اذان کا اضافہ کر دیا۔‘‘ یاد رہے کہ اس تیسری اذان سے مراد وہ اذان ہے جو آج کل خطبے سے پندرہ منٹ یا آدھ گھنٹہ پہلے کہی جاتی ہے، اس کے بعد کی دو اذانوں سے مراد اذان اور اقامت ہیں۔ یہ تیسری اذان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنھما کے دور میں نہیں کہی جاتی تھی، عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی کثرت کے پیشِ نظر اس کا اضافہ کیا، مگر ان کے زمانے میں یہ اذان مسجد میں نہیں کہی جاتی تھی بلکہ بازار میں کہی جاتی تھی، تاکہ لوگوں کو اطلاع ہو جائے۔ آج کل نہ اس اذان کا اہتمام مسجد سے الگ بازار میں کیا جاتا ہے، نہ لاؤڈ سپیکر کی وجہ سے اس کی ضرورت باقی ہے اور نہ ہی مسجد میں خطبے سے پہلے دو اذانیں عثمان رضی اللہ عنہ کا طریقہ ہے۔ اس لیے خطبے سے پہلے مسجد میں ایک ہی اذان کہی جانی چاہیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر و عمر رضی اللہ عنھما کا طریقہ ہے اور عثمان رضی اللہ عنہ کا عمل بھی یہی ہے۔ 4۔ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ : ’’سَعٰي يَسْعٰي سَعْيًا‘‘ (ف) کا معنی دوڑنا بھی ہے اور کوشش کرنا بھی، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى﴾ [ النجم :۳۹ ] ’’اور یہ کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی۔‘‘ یہاں دوسرا معنی مراد ہے، یعنی نہایت کوشش اور اہتمام کے ساتھ آؤ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لیے دوڑ کر آنے سے منع فرمایا ہے۔ 5۔ وَ ذَرُوا الْبَيْعَ : اگرچہ جمعہ کے لیے پہلے آنا بہت فضیلت کا باعث ہے اور اس کے متعلق احادیث مشہور و معروف ہیں، مگر آخری حد جس کے بعد جمعہ کی طرف روانگی یا اس کے لیے درکار کام کے سوا ہر کام حرام ہو جاتاہے وہ جمعہ کی اذان ہے۔ یہاں ’’ الْبَيْعَ ‘‘ کا ذکر اس خاص واقعہ کے پیش نظر آیا ہے جو اگلی آیت میں آ رہا ہے، ورنہ اللہ کے ذکر کی طرف سعی جس طرح بیع ترک کرنے کے سوا نہیں ہو سکتی دوسرے تمام کام ترک کرنے کے بغیر بھی نہیں ہو سکتی اور ظاہر ہے کہ جب سعی فرض ہے تو ہر وہ کام حرام ہے جو اس سے روکنے والا ہے۔ 6۔ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : ظاہر ہے آخرت کے ثواب کے مقابلے میں دنیا کے فائدوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ 7۔ جمعہ کے دن غسل کرنا، اچھے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا، پہلے آنا، خاموشی کے ساتھ خطبہ سننا اور دوسرے متعلقہ احکام و فضائل کتب احادیث میں تفصیل سے مذکور ہیں۔